Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

25 ستمبر 1981: جب چودھری ظہور الٰہی سٹین گنوں اور دستی بموں کا نشانہ بنے

چودھری شجاعت کے مطابق ’ان کے والد نے بتایا تھا کہ ’الذوالفقار‘ انہیں قتل کرنا چاہتی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
 ’میں 25 ستمبر 1981 کی وہ دوپہر کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ میں گلبرگ میں اپنے دوست کے گھر بیٹھا گپ شپ میں مصروف تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بتایا گیا کہ میرے والد کی گاڑی پر ماڈل ٹاؤن موڑ کے قریب حملہ ہوا ہے اور وہ شدید زخمی ہیں۔‘
’میں شدید پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ دیکھا کہ والد صاحب کے سارے دوست احباب جمع ہیں۔ ایک کمرے میں میرے تایا چودھری منظور الٰہی خاموش بیٹھے تھے۔میں نے والد صاحب کی خیریت دریافت کی تو ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ میں سمجھ گیا کہ میرے والد اب دنیا میں نہیں رہے۔‘
ملک کے معروف سیاست دان اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کا مندرجہ بالا بیان ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ سے لیا گیا ہے جس میں وہ ٹھیک 40 سال قبل آج ہی کے دن اپنے والد چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا احوال بیان کرتے ہیں۔
مرحوم اس روز اپنے دوست کے گھر سے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے پراسیکیوٹر ایم اے رحمان ایڈووکیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ مولوی مشتاق کو ڈراپ کرنے ان کے گھر جا رہے تھے۔ظہور الہی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔
ماڈل ٹاؤن موڑ کے قریب ایک کار نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور سامنے آکر گاڑی روک دی۔ کار سواروں نے سٹین گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔کار کے اندر دو دستی بم پھینکے جن میں سے ایک ظہور الٰہی کے ڈرائیور نسیم نے اٹھا کر باہر پھینک دیا جبکہ دوسرے کے پھٹنے سے وہ مرگیا۔چودھری ظہور الٰہی کے سینے میں گولی لگی۔
مولوی مشتاق حسین کو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ ایم اے رحمان بالکل محفوظ رہے۔
شدید زخمی چودھری ظہور الٰہی کو کرسچیئن  ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ان کے بھائی چوہدری منظور الٰہی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کے حق میں نہ تھے لیکن بارک اللہ ایڈووکیٹ اور جسٹس کرم اللہ چوہان کے اصرار پر راضی ہوگئے۔
چوہدری ظہور الٰہی ملک کے صف اول کے سیاسی رہنما اور ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت رہ چکے تھے ۔ان کے قتل سے ملک میں سوگواری اور چہ مگوئیوں کی لہر پیدا ہو گئی۔

فائرنگ کے وقت چودھری ظہور الٰہی اس کار میں سوار تھے (فائل فوٹو: اے پی پی)

چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حادثے سے تین روز قبل میرے والد نے راجہ ظفر الحق کو بتایا تھا کہ مجھے اپنے ذرائع سے خبر ملی ہے کہ الذوالفقار نے مجھے قتل کرنے کی سازش تیار کی ہے۔
اس واقعے کی شام سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو نے دہلی میں بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی کو ٹیلی فون کر کے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ان کے بیان کے مطابق ڈاکٹر مصدق اور اقبال نامی شخص نے یہ جان لیوا حملہ کیا تھا۔
پاکستان ایئر فورس کے سابق سربراہ اور اپنے وقت کے نامور سیاسی رہنما اصغر خان اپنی کتاب ’مائی پولیٹیکل سٹرگل‘ میں مرتضیٰ بھٹو کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس طرح کی تنظیموں میں یہ معمول کی بات ہے کہ وہ ان کاروائیوں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیں جو انہوں نے سرانجام ہی نہیں دی ہوتیں۔البتہ اس کام میں ملوث افراد کا نام ظاہر کرنا ایک غیر معمولی بات ہے۔
پولیس کی تفتیش میں سامنے آیا کہ واردات میں استعمال ہونے والی دونوں گاڑیاں چوری شدہ تھیں۔بالآخر پولیس نے عبدالرزاق جھرنا نامی نوجوان کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اس نے الذوالفقار  سے اپنی وابستگی اور کابل میں ٹریننگ لینے کا اعتراف بھی کیا۔
چوہدری شجاعت حسین اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’ان کی والدہ نے انہیں پتا لگانے کا کہا کہ پولیس نے واقعی اصل قاتل گرفتار کیا ہے یا خانہ پری کے لیے کسی بے گناہ کو پکڑ لیا ہے۔

ظہور الٰہی کے قتل کے روز ہی میر مرتضیٰ بھٹو نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی (فائل فوٹو: انڈین ایکسپریس)

والدہ کے حکم پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت اسے ملنے تھانے چلے گئے۔ گفتگو میں اس سے پوچھا کہ اگر اس نے قتل نہیں کیا تو بتا دے تاکہ اسے رہا کروایا جائے۔
چودھری شجاعت حسین کے بقول نوجوان نے اعتماد سے جواب دیا کہ ’میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔مجھے پھانسی نہیں ہوگی ۔میرے لوگ مجھے رہا کروا لیں گے۔
کچھ عرصے بعد اس کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی ہو گیا جبکہ اس کا دوسرا ساتھی لالہ اسد پٹھان کراچی میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
ماضی میں الذوالفقار سے منسلک رہنے اور ضیاءالحق پر قاتلانہ حملے کی مبینہ سازش کے الزام میں آٹھ برس جیل کاٹنے والے آصف بٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ چوہدری ظہور الٰہی کے قتل سے پندرہ بیس دن قبل پولیس نے جیل سے ان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کروائی تھی۔
انہوں نے اپنی کتاب ’کئی سولیاں سرراہ تھیں‘ میں اس کی مزید تفصیل بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں تفتیش کاروں کو الذوالفقار کی طاقت سے دہشت زدہ کرنے کے لیے بے سروپا کہانیاں گھڑ کر سناتا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا لیکن میں نے ان کا نام بھی لے لیا کہ الذوالفقار انھیں ختم کرنا چاہتی ہے۔
وہ ظہور الٰہی سے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے میری اس اطلاع کے بارے میں کچھ سوالات کیے جو ان کے خلاف ممکنہ انتہائی اقدام سے متعلق تھی۔
میں نے اس کی تصدیق کی تو کہنے لگے کہ ’خیر ہے جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں گزار سکتا ۔تمہارے بارے میں کیا کہوں ۔دعا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں اس مصیبت سے نجات ملے۔‘

بھٹو دور میں چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مشہور زمانہ مقدمہ قائم ہوا (فائل فوٹو: سچ تو یہ ہے)

آصف بٹ چوہدری ظہور الہٰی کی گاڑی پر حملے کا مقصد مولوی مشتاق کی جان لینا بتاتے ہیں۔ان کے مطابق اس کام کے لیے تین افراد کا گروپ تشکیل دیا گیا تھا جن کا سربراہ لالہ اسد پٹھان تھا۔
اس کے علاوہ رحمت اللہ انجم اور ملک جاوید اس میں شامل تھے ۔عبدالرزاق جھرنا کابل سے اس گروپ میں شامل نہ تھا بلکہ اس کا الگ  گروپ تھا اور الگ ٹاسک بھی۔
لالہ اسد نے 25 ستمبر کو مولوی مشتاق کا حساب بےباک  کرنے کا فیصلہ کیا۔عبدالرزاق جھرنا لالہ اسد کی خواہش پر ان کے ساتھ ہو لیا۔
آصف بٹ کہتے ہیں کہ ’ان چاروں میں سے کوئی بھی مولوی مشتاق کی شکل سے واقف تھا اور نہ ہی چوہدری ظہور الٰہی کو پہچانتا تھا۔لالہ اسد  پٹھان نے  کلاشنکوف کے فائر کھول دیے جس سے چوہدری ظہور الٰہی اور ان کا ڈرائیور نسیم راہی ملک عدم ہوئے۔
چودھری ظہور الٰہی اپنے دور کے نامور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ایک پولیس کانسٹیبل سے قومی سطح کے رہنما تک کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا۔ایک صدی قبل گجرات کے علاقے نت میں جنم لینے والے چودھری ظہور الہٰی جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کی سیاست کے بادشاہ مانے جاتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل پولیس کی نوکری سے فراغت حاصل کر کے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا ۔تقسیم ہند کے بعد میلا رام مل کی الاٹمنٹ نے ان کی معاشی اور سماجی حیثیت دو چند کر دی جس کے بعد ان کی اگلی منزل ضلع گجرات کی سیاست میں نمایاں ہونا تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت میں پرویز الٰہی کے ڈپٹی وزیراعظم بننے سے چودھری برادران اور بھٹو خاندان کے تعلقات بہتر ہوگئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس دور کا گجرات نوابزادہ خاندان کی زبردست سیاسی اور معاشی قوت کے زیر اثر تھا ۔نواب سر فضل علی (نوابزادہ غضنفر گل کے دادا) تقسیم سے قبل اسمبلی کے ممبر تھے۔
ان کی سیاسی وراثت کو بیٹے نوابزادہ اصغر علی نے آگے بڑھایا ۔ان کا تعلق گجر برادری سے تھا ۔ان کے مخالف جاٹ قبیلے کی سرکردہ سیاسی شخصیت بہاول بخش کے بیٹے محمد احسن علیگ (اعتزاز احسن کے والد) تھے۔
دھڑے بندی اور برادری کی سیاست کے زیر اثر چوہدری ظہور الٰہی نے دونوں گروپوں کے افراد کے ساتھ مل کر اپنا الگ دھڑا تشکیل دیا۔
نوابزادہ خاندان سے ان کا پہلا ٹکراؤ کوآپریٹیو بینک کے انتخابات میں ہوا ۔انہوں نے برسوں سے سینٹرل بینک کے سربراہ چلے آنے والے اصغر علی کے ناقابل تسخیر ہونے کا زعم توڑ دیا۔
یہ سب احسن علیگ اور چوہدری فضل الٰہی (بعد ازاں صدر پاکستان) کے ساتھ ان کے سیاسی مراسم اور تعاون کا نتیجہ تھا۔ ان دونوں نے سنہ 1956 کے انتخابات میں نواب زادہ برادران کے مقابلے میں فتح سمیٹی۔
اعلٰی تعلیم یافتہ اور نستعلیق شخصیت کے مالک احسن علیگ جلد دھڑے بندی کی سیاست سے بیزار ہوکر لاہور جا بسے۔ اب چوہدری ظہور الٰہی گجرات کے جاٹوں کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن گئے۔
جب ریپبلکن پارٹی بنی تو انہوں نے فضل الٰہی سمیت اپنے دھڑے کی تقویت اور مخالفین کی زد میں اس میں شمولیت اختیار کرلی ۔
معروف محقق سید عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شخصیات نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت کے بعد گجرات مسلم لیگ کے دفتر پر قبضہ کرکے اس پر ریپبلکن پارٹی کا بورڈ آویزاں کر دیا۔

سنہ 1965 کے انتخابات میں ظہور الٰہی کی ناکامی کی بڑی وجہ نواب آف کالاباغ کے ساتھ چپقلش تھی (فائل فوٹو: فلکر)

اعلٰی تعلیم یافتہ اور نستعلیق شخصیت کے مالک احسن علیگ جلد دھڑے بندی کی سیاست سے بیزار ہوکر لاہور جا بسے۔ اب چوہدری ظہور الٰہی گجرات کے جاٹوں کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن گئے۔
جب ریپبلکن پارٹی بنی تو انہوں نے فضل الٰہی سمیت اپنے دھڑے کی تقویت اور مخالفین کی زد میں اس میں شمولیت اختیار کرلی ۔
معروف محقق سید عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شخصیات نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت کے بعد گجرات مسلم لیگ کے دفتر پر قبضہ کرکے اس پر ریپبلکن پارٹی کا بورڈ آویزاں کر دیا۔
اس شمولیت نے چوہدری ظہور الٰہی کے لیے گجرات ڈسٹرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کا راستہ ہموار کر دیا ۔عقیل عباس جعفری کے مطابق مغربی پاکستان کے وزیر بلدیات اور ریپبلکن پارٹی کے اہم رہنما مخدوم حسن محمود (سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے والد) نے نوابزادہ اصغر علی کی جگہ چوہدری ظہور الٰہی کو ڈسٹرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنوا دیا۔
یہ عہدہ بعد ازاں ایوب خان کے مارشل لا میں ان کے لیے قید اور آزمائش کا باعث بھی بنا جب ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست دانوں کی نااہلی کا عمل شروع کیا گیا۔
وہ گنتی کے ان سیاسی رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر سیاست چھوڑنے کے بجائے قانون کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ظہور الہٰی نے اپنا کیس خود لڑ کر بریت حاصل کی۔

نواز شریف کی غلام دستگیر خان اور میاں زاہد سرفراز کے ہمراہ چودھری ظہور الٰہی کے گھر تعزیت کے موقعے پر لی گئی تصویر (فائل فوٹو: روزنامہ جنگ)

سنہ 1962 کے انتخابات میں انہوں نے اپنے روایتی حریف نوابزادہ اصغر علی کو پچھاڑ ڈالا ۔یہاں سے ان کی قومی سطح پر جاندار اور جوڑ توڑ کی سیاست کا آغاز ہوا ۔وہ ان سیاست دانوں میں شامل تھے جنہوں نے مل کر ممتاز دولتانہ کے نامزد سپیکر قومی اسمبلی افضل چیمہ کی سپیکر کے انتخابات میں ہار میں اہم کردار ادا کیا۔
یہیں سے حکمران جماعت کنونشن لیگ کے ساتھ ان کی سیاسی رفاقت کا آغاز ہوا ۔وہ قومی اسمبلی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری قرار پائے مگر یہ ساتھ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔
سنہ 1965 کے انتخابات میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا ۔اس بار انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ کے ساتھ ان کی سیاسی چپقلش تھی۔
ان کے خلاف نواب آف کالا باغ کے حکم پر مقدمات قائم ہونے لگے۔ چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ ’نواب نے میرے والد کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ قومی اسمبلی کی سیٹ سے دستبردار ہوجائیں تو صوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں انہیں مل سکتی ہیں ۔انہوں نے یہ پیش کش مسترد کردی۔
نواب امیر محمد خان کے ساتھ ان کی مخاصمت کی اصل وجہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’نواب آف کالاباغ کے معاملے میں ان سے فاش غلطی یہ ہوئی کہ وہ اپنے سیاسی عزائم پر نزول برکت کے لیے نواب سے آشیرباد حاصل کرنا بھول گئے یا قصداً نظرانداز کرگئے۔

ایوب خان کے مارشل لا میں ظہور الٰہی نے سیاست چھوڑنے کے بجائے قانون کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا (فائل فوٹو: سچ تو یہ ہے)

صدر مملکت کو رام کر کے غالباً ان کی نگاہ مغربی پاکستان کی گورنری پر لگی ہوئی تھی۔ یہ افواہ اُڑتے اُڑتے نواب تک پہنچ گئی۔ وہ طیش میں آ کر چوہدری ظہور الٰہی کے خون کے پیاسے ہو گئے اور انہیں بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کروادیا۔
گورنر کے جوروستم کے باعث ان کے قریبی ساتھی چوہدری فضل الٰہی بھی ساتھ چھوڑ گئے ۔حکمران جماعت کنونشن لیگ سے علیحدہ ہوئے تو ان کے سیاسی حریف نوابزادہ اصغر علی کونسل مسلم لیگ سے کنونشن لیگ میں آگئے۔
سنہ 1970 کے انتخابات میں دونوں کا ایک بار پھر مقابلہ ہوا ۔انہوں نے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔
بھٹو دور میں وہ مسلسل زیر عتاب رہے ۔اس دور میں ان پر بھینس چوری کا مشہور زمانہ مقدمہ قائم ہوا حالانکہ ابتدا میں بھٹو ان کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے خواہاں تھے۔
چودھری شجاعت حسین کے مطابق ’ممتاز دولتانہ کی بیٹی کی شادی میں ان کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہیں وزارت کی پیش کش کی گئی۔ انہوں نے شائستگی سے منع کردیا۔
مگر عقیل عباس جعفری کے خیال میں پیپلز پارٹی میں نہ جانے کی وجہ ان کے سابق سیاسی دوست چودھری فضل الٰہی تھے۔وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر انہیں پارٹی سے دور رکھنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے غلام مصطفیٰ کھر اور دیگر کے ذریعے بھٹو صاحب اور ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں اب ظہور الٰہی اپوزیشن کے اہم رہنما تھے ۔انہوں نے حکومت مخالف سیاسی قوتوں کو یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے لگے ۔اس شعلہ نوائی کا نتیجہ ان کے گھر سے عراقی اسلحہ کی برآمدگی کے کیس کی صورت میں سامنے آیا۔
اس کیس میں انہیں گرفتار کرکے بلوچستان کے علاقےکوہلو لے جایا گیا ۔چودھری شجاعت حسین ملک غلام جیلانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ یہ سازش تیار کی گئی تھی کہ انہیں عدالتی پیشی کے بہانے کوہلو سے کوئٹہ لے جاتے ہوئے راستے میں قتل کروا دیا جائے گا۔
اس واردات کو بلوچ تخریب کاروں اور پولیس کا مقابلہ ظاہر کر کے کیس کی فائل کو دفنا دیا جائے گا ۔چودھری شجاعت حسین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے اس منصوبے پر بلوچستان کے گورنر نواب اکبر بگٹی نے عمل درآمد سے انکار کر دیا۔
سابق آئی جی  پولیس سردار چودھری نے اپنی کتاب ’الٹیمیٹ کرائم آئی وٹنیس آف پاور گیم‘ میں اس واقعے میں بھٹو کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک دوسرا رخ پیش کیا ہے۔
ان کے مطابق بھٹو کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ یہ منصوبہ ان کے چیف سکیورٹی آفیسر سعید احمد خان اور ایک سینیئر پولیس افسر وکیل خان نے مل کر بنایا تھا۔
سردار چودھری مزید لکھتے ہیں کہ ’جب ان کے علم میں اس واقعے کے کچھ حقائق آئے تو انہوں نے آئی جی پنجاب صاحبزادہ رؤف علی خان کو آگاہ کیا جو انہیں گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کے پاس لے گئے۔‘
کھر نے انہیں بتایا کہ جب وہ یہ معاملہ وزیراعظم کے علم میں لائے تو ان کا جواب تھا کہ ’میرے علم میں نہیں ہے کہ یہ شریر پولیس افسران میرے علم میں لائے بغیر کیا کر رہے ہیں۔‘ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد یہی سعید احمد خان اور وکیل خان ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔
چوہدری ظہور الٰہی کشادہ دل اور اعلٰی ظرف سیاست دان تھے ۔اپنے مخالفین کے معاملے میں رکھ رکھا و مروت کے قائل تھے۔
سنہ 1981 میں لندن سے شائع ہونے والے اردو اخبار ملت کے ساتھ ان کا تنازع پیدا ہو گیا ۔اس کی تفصیل اخبار کے ایڈیٹر انعام عزیز نے اپنی کتاب ’سٹاپ پریس اے لائف آف جرنلزم‘ میں بیان کی ہے۔
ان کے مطابق ’چودھری صاحب کی لندن آمد پر ان کے اخبار میں شائع شدہ خبر کی سرخی میں ان کے نام کے بجائے پولیس دور کے سروس نمبر کا حوالہ دیا گیا تھا۔اس پر انہیں ظہور الہی کی طرف سے ہرجانے کا نوٹس ملا۔‘
انعام عزیز ان دنوں دل کے آپریشن کے مرحلے سے گزرنے والے تھے ۔ان کے ایک دوست اکرام بیگ نے فون پر انہیں مطلع کیا کہ چوہدری ظہور الٰہی تھوڑی دیر میں ان سے بات کریں گے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ چوہدری صاحب نے ان کی صحت کے بارے میں احوال پوچھنے کے بعد بتایا کہ وہ لندن کیس کی پیروی کے لیے آئے ہیں۔ ان کی بیماری کا سن کر انہوں نے اپنے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ انعام عزیز کا نام کیس سے نکال دیں ۔
صرف اخبار اور اس کی ملکیت رکھنے والی کمپنی کو فریق بنائیں۔ لندن کورٹ نے سماعت کے بعد ملت کے خلاف فیصلہ دیا۔ کمپنی کو حکم دیا گیا کہ وہ ہرجانہ کے طور پر 60 ہزار پاؤنڈز ادا کرے۔ انعام عزیز کے الفاظ میں چوہدری ظہور الٰہی کا غیر معمولی رویہ اور انداز کبھی بھولنے والا نہیں۔
گجرات کے چوہدری برادران کا سیاسی رکھ رکھاؤ اور رواداری انہیں ورثے میں ملی ہے ۔ظہور الٰہی کے ساتھ اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے ان کے ڈرائیور نسیم کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع باغ کے علاقے تلکیر سے تھا ۔
مرحوم کے بیٹے داؤد نسیم قومی اسمبلی میں سٹاف افسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ میرے والد کے قتل کے وقت میری عمر محض پانچ برس تھی۔
چودھری شجاعت حسین اور ان کے بھائیوں نے اپنے خاندان کی طرح ہمارا خیال رکھا۔ انہیں ایبٹ آباد کے برن ہال کالج میں تعلیم دلوائی۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی دوبار ان کے دور افتادہ گاؤں میں پیدل چل کر ان کے گھر گئے۔
چالیس برس قبل چوہدری ظہور الٰہی کے قتل سے ان کے خاندان اور پیپلز پارٹی میں نفرت اور مخالفت کی دیوار کھڑی ہو گئی تھی۔
چوہدری خاندان پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں چوہدری پرویز الٰہی کے ڈپٹی وزیراعظم بننے سے عداوت کی یہ دیوار گر گئی۔ آج بھی دونوں کے درمیان حکومت اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود خوش گوار مراسم قائم ہیں۔

شیئر: