Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتظار

تاریخ بڑی ستم پرور ہے۔ اپنا دامن یوں سمیٹتی ہے کہ اس میں اٹھکیلیاں کرنیوالے اپنے پاؤں تک ڈھونڈھتے رہ جاتے ہیں

- - - - - - -

جاوید اقبال

- - - - - -

21اپریل 2017ء کے دن مملکت عظمیٰ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ الیگزینڈرا میری 91برس کی ہوگئیں۔ اس صبح وہ قومی ترانے "گاڈ سیو دا کوئین"کی دھن خاموش ہوتے ہی اپنی رہائس گاہ قصر بکنگھم سے نکلیں اور صدر دروازے کے باہر سڑک کے دونوں جانب کھڑے کئی سو خیر خواہوں کے ہجوم میں گھل مل گئیں۔ عورتوں اور بچوں نے گرمجوشی سے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ وہ سب ملکہ معظمہ کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دینے آئے تھے۔ ملکہ کے عقب میں شاہی خاندان کے چند افراد مودٔب کھڑے تھے، ان کی آنکھیں مسرت سے چمک رہی تھیں لیکن ایک شخصیت ایسی تھی جس کے لبوں پر تو مسکراہٹ تھی لیکن جس کی عمر رسیدہ کہر آلود آنکھوں میں گہری سوچ کی طنابیں تھیں۔
ان خانہ ہائے چشم میں شکستہ خوابوں اور حسرتوں کے مزار تھے، انتظار نڈھال ہو چکا تھا۔ 26سالہ شہزادی الزبتھ الیگزینڈرا میری اپنے والد شاہ جارج ششم کی ولیعہد تھیں۔ 1952ء کے اوائل میں اپنے شوہر پرنس آف ویلز شہزادہ فلپ کے ہمراہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر چلیں۔ راہ میں ایک ہفتے کیلئے مشرقی افریقی ملک کینیا میں پڑاؤ تھا۔ جنگلی حیات مشرقی اور وسطی افریقہ میں بکثرت ہے چنانچہ سیاحوں کیلئے جنگلوں میں انتہائی آرام دہ اور جاذب نظر قیام گاہیں بنائی گئی ہیں۔ ٹری ٹاپس نامی ایسی ہی ایک کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریباً ایک سو میل دور ابرڈیر کے جنگل میں تعمیر کی گئی ہے۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ علاقے کی اکلوتی جھیل کے کنارے درختوں کی شاخوں پر اسکے درودیوار اٹھائے گئے ہیں۔
سیاح رسی کی سیڑھیوں کے ذریعے اترتے چڑھتے ہیں۔ رات کو سیڑھی اوپر کھینچ لی جاتی ہے۔صبح سویرے جنگلی جانور جھیل سے پانی پینے کیلئے آتے ہیں۔ شیر ، ہرن ، ہاتھی، چیتا، بندر، بھینس سب ایک گھاٹ پر انتہائی شرافت سے تھوتھنیاں جھکائے پیاس بجھاتے ہیں ۔ سیاح کھڑکیاں کھولے بلندی پر سے نظارہ دیکھتے ،تصاویر بناتے رہتے ہیں۔ اگر ایک آدھ زرافہ آئے تو بڑے سکون سے کسی کھڑکی میں سے تھوتھنی اندر کر کے سیاح کے ہاتھ سے کوئی پھل اچک لیتا ہے۔ 6فروری 1952ء کے دن شہزادی الزبتھ اور شہزادہ فلپ اسی قیام گاہ میں تھے کہ انہیں شاہ جارج ششم کے انتقال کی خبر ملی۔ دورہ ختم کرنا پڑا۔ ٹری ٹاپس قیام گاہ کی رسی کی سیڑھی چڑھ کر اوپر جانے والی شہزادی الزبتھ جب نیچے اتری تو ملکہ الزبتھ تھی۔
شیروں کے معروف شکاری جِم کارپٹ نے اس واقعہ پر بڑا پھڑکتا جملہ کہا تھا"وہ جب درخت پر چڑھی تو شہزادی تھی جب نیچے آئی تو ملکہ تھی"۔ 66برس جتنے طویل، طویل ترین عرصے تک دنیا کے کسی بھی ملک پر حکمرانی کرنیوالی آج صرف ملکہ برطانیہ کی ہستی ہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانوی استعمار کا وہ سورج جو 19ویں صدی کے وسط سے 20ویں صدی کے آغاز تک کرۂ ارض پر غروب ہونا فراموش کر چکا تھا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نصف النہار سے زوال کو چل پڑا تھا چنانچہ جب الزبتھ تخت نشین ہوئیں تو دولت مشترکہ کے ممالک میں برطانیہ کا صرف اتنا اقتدار رہا کہ ان کے پرچموں کے کونوں میں برطانوی یونین جیک اپنا علامتی وجود ہی قائم رکھ سکا اور پھر اگلی 2دہائیوں میں یہ علامت بھی رد کردی گئی ۔ برٹش میوزیم کے وسیع و عریض کمرے اور ان میں مختلف ممالک سے لائے گئے نوادرات یہ ساری داستاں کہتے ہیں۔
ملکہ وکٹوریا کے عہد میں جب برطانوی استعمار نے پاؤں پھیلائے تو ملکہ معظمہ کے سفینے دساور سے ہزاروں ، لاکھوں تحائف لندن کی بندرگاہ پر سمیٹے لاتے۔ 1753ء میں سر ہینز سلون نے اس شہرہ آفاق عجائب گھر کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے تاریخ ، فنون اور ثقافت کا مرکز کہا گیا۔ 15جنوری 1759ء کو اسے عامتہ الناس کیلئے کھول دیا گیا۔ وقت کے ساتھ اس میں توسیع ہوتی رہی اور ایک لائبریری کا اضافہ کر دیاگیا۔مختلف براعظموں سے لائے گئے تحائف کی تخصیص کیلئے شعبے قائم کئے جاتے رہے۔ قدیم مصر اور سوڈان سے آئے نوادرات کیلئے ایک حصہ مختص کیا گیا۔ آج اس میں ایک لاکھ سے زیادہ اشیاء موجود ہیں۔ یونان سے آئے عجائبات کیلئے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔
زمانہ قبل از مسیح کے نوادرات ، یونانی سنگتراشوں کے بنائے حسین مجسمے، حکمرانوں کے استعمال کی اشیاء، المیہ نویسوں اور فلسفیوں کے اپنے ہاتھ سے لکھے شہ پارے سب برٹش میوزیم کی زینت بڑھاتے رہے۔ بابل، نینوا اور شام سے لُوٹے گئے نوادرات کیلئے مشرق وسطیٰ کا شعبہ قائم کیاگیا۔ 3لاکھ 30ہزار اشیاء دجلہ اور فرات کے کناروں پر پرورش پانے والی تہذیب کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ ہندوستان، آسٹریلیا اور مشرق بعید سے اٹھائے گئے نوادرات جب برٹش میوزیم پہنچائے گئے تو ان کیلئے بھی ایک خصوصی حصہ تعمیر کیا گیا اور اس کا نام ایشیائی شعبہ رکھا گیا۔ آج 75ہزار نوادرات گنگا جمنا اور سندھ کے کناروں پر زمانہ قبل از مسیح میں اٹھنے والی تہذیب کی شہادت دیتے ہیں۔ اس عجائب گھر کا حصہ ایک لائبریری ہوتی تھی جسے علیحدہ کر کے اس کا نام برٹش لائبریری رکھ دیاگیا۔
اس عمارت میں کتب اور دستاویزات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اور محققین کیلئے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ عجائب گھر کی عمارت میں رکھے گئے نوادرات ہر اس ملک سے لائے گئے ہیں جو کبھی برطانیہ کی نوآبادی رہا۔ گھنٹوں گھومتے رہنے اور اس وسیع و عریض عمارت کا کونا کونا چھاننے کے بعد بھی وہاں کوئی چیز برطانوی نظر نہیں آتی۔ اس عمارت میں لندن کا وجود نہیں ، کسی برطانوی شہر سے لائی گئی کوئی بھی چیز وہاں رکھی نہیں گئی پھر بھی عجائب گھر کی صدر محراب پر ’’برٹش میوزیم‘‘ کے الفاظ تحریر ہیں جبکہ محراب یونانی ایکروپولیس کے دیوان عام کے صدر دروازے کی نقل کر کے بنائی گئی ہے تو جب ملکہ معظمہ برطانیہ الزبتھ الیگزینڈرا میری اپنی 91ویں سالگرہ کی صبح قومی ترانہ "گاڈ سیو دا کوئین"خاموش کھڑی سن رہی تھیں تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ جوترانہ کبھی کرہ ارض کے تقریباًہر ملک میں صبح سویرے گایاجاتا تھا وہ اب برطانیہ کے علاوہ صرف کینیڈا، آسٹریلیا او رنیوزی لینڈ میں گونجتا ہے۔ تاریخ بڑی ستم پرور ہے۔ اپنا دامن یوں سمیٹتی ہے کہ اس میں اٹھکیلیاں کرنیوالے اپنے پاؤں تک ڈھونڈھتے رہ جاتے ہیں۔ تو جب ملکہ معظمہ الزبتھ قصر بکنگھم کے صدر دروازے کے باہرکھڑے ہجوم سے اپنی سالگرہ کی مبارکباد وصول کر رہی تھیں تو ایک شخصیت ایسی تھی جس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی لیکن جس کی عمر رسیدہ آنکھوں میں گہری سوچ کی طنابیں تھیں جن میں انتظار نڈھال ہو چکا تھا ،اپنے سفید موسرپر کوہ ِنور ہیرے سے مزین تاجِ برطانیہ سجانے کا انتظار !! شہزادہ چارلس کو ولیعہد بنے ساڑھے 68برس بیت چکے ہیں۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

شیئر: