Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ڈی ایم دھرنا اور سپریم کورٹ: سیاسی بحران سنگین تر ہونے والا ہے؟ 

 پاکستان کے حکومتی اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کال پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے استعفے کے لیے دھرنے کے شرکا وفاقی دارالحکومت پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ 
دوسری طرف سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے اور امکان پایا جاتا ہے کہ اس مقدمے کے دوران اعلٰی عدلیہ کی طرف سے کوئی سخت حکم بھی آ سکتا ہے۔ 
پاکستان تحریک انصاف اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے دھرنے کے خلاف چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تحفظ کا اعلان کر رکھا ہے۔ 
جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مفتی ابرار نے اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنے میں شرکت کے لیے پاکستان بھر سے لوگ آئے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد وکلا کی بھی ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ دھرنا پر امن ہو گا لیکن اسے جاری رکھنے کی مدت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ اس کے آغاز کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے ساتھ آہستہ آہستہ واضح ہو گا۔  
تاہم انہوں نے کہا کہ ایک بات طے ہے کہ جیسا کہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے یہ احتجاج اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد ہی ختم ہو گا۔ 
مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کے آغاز سے پہلے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ چیف جسٹس کے استعفے تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔ 
ان کے مطابق ان کا دھرنا ہر صورت میں کامیاب ہو گا۔ 
مستقبل کی سیاست کا رخ
تو کیا اس ہفتے کے یہ اہم واقعات فیصلہ کر دیں گے کہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا رخ کیا ہو گا؟ 
اس سوال کا جواب بھی اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ اس ہفتے کے آغاز کے وقت کی صورتحال۔ 
سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار متفق ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال جلد سنبھلنے والی نہیں ہے اور فوری طور پر کسی مثبت تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ 

جے یو آئی نے چیف جسٹس کے استعفے تک احتجاج جاری رکھنے کا کہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصر اور صوبہ پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں درست پیشگوئیوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ سیاست کچھ قوانین اور ضابطوں پر استوار ہو۔ 
’بد قسمتی سے پاکستان کی سیاست میں کوئی اصول نہیں ہے، اس لیے اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔‘  
ان کے مطابق اس ہفتے ہونے والے واقعات مسئلے کے حل کی طرف نہیں بلکہ کرائسز کے بڑھنے کی طرف جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ 
’یہ عجیب بات ہے کہ بر سر اقتدار جماعت احتجاج کر رہی ہے۔ اس سے غیر یقینی بڑھے گی۔‘ 
انہوں نے کہا ’کھیل کے چار کھلاڑی ہیں اور وہ اپنا اپنا کھیل پیش کر رہے ہیں۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ مسئلے کے حل کی طرف لے کر جاتی تھی لیکن اس مرتبہ وہ بھی نہیں ہے۔‘ 
تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق یہ چاروں کھلاڑی ابھی آپس میں لڑ رہے ہیں اور ابھی لڑ لڑ کے تھکے نہیں ہیں۔  
’مسئلے کا حل تب ہی نکلے گا جب یہ لڑ لڑ کر تھک جائیں گے۔‘
ان کے مطابق سیاسی حرارت اس ہفتے بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔  
’اس وقت دونوں طرف کی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔‘ 

مبصرین کے خیال میں موجودہ سیاسی صورتحال جلد سنبھلنے والی نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’رواں ہفتے جہاں پی ڈی ایم کی طرف سے عدلیہ پر دباؤ بڑھے گا وہاں عدلیہ کی طرف سے کسی بڑی شخصیت کے خلاف پنجاب میں الیکشن نہ کروانے پر کاروائی کا حکم آ سکتا ہے۔‘ 
’سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کر سکتی ہیں۔ اور یہ سب قیاس کو بڑھا دے گا۔‘ 
ماجد نظامی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بڑے فیصلوں پر عمل درآمد اسی وقت ہوتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہوتی ہے اور پنجاب میں الیکشن کے حکم پر عمل درآمد نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہیں ہے۔  
ان کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان پر ہاتھ ڈالنے کی ایک اور کوشش کی جاسکتی ہے جس سے ملکی سیاسی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ 
ماجد نظامی کے مطابق مسئلے کے دو ہی حل ہیں۔ 
’تمام سیاسی نمائندے مل کر بیٹھیں اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے باہمی رضامندی سے نکات طے کر لیں۔ یا پھر اسٹیبلشمنٹ سب کو بٹھائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک فریق سمجھا جا رہا ہے اور ان کو یہ تاثر زائل کرنے کے لیے بہت یقین دہانیاں کروانا پڑیں گی۔‘ 

شیئر: