اردو نیوز کو دستیاب 20 مئی 2023 کی ’روزمرہ کرائم ڈائری‘ کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ راولپنڈی کے چند تھانوں میں گزشتہ ہفتے سٹریٹ کرائمز کی متعدد شکایات درج ہوئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے راولپنڈی کے نیو ٹاؤن تھانے کی حدود میں شہریوں سے اسلحے کے زور پر موبائل فونز اور نقدی چھیننے کے سب سے زیادہ یعنی 14 واقعات رپورٹ ہوئے۔
نیو ٹاؤن تھانہ راولپنڈی کی مشہور کمرشل مارکیٹ میں واقع ہے جہاں شہریوں کی بڑی تعداد خریداری کے لیے موجود رہتی ہے جبکہ اس علاقے میں سکولوں، کالجوں سمیت طلبہ و طالبات کے کئی ہاسٹلز بھی ہیں۔
راولپنڈی کا دوسرا تھانہ صادق آباد ہے۔ ڈائری کے مطابق گزشتہ ہفتے اس تھانے کے حدود میں موبائل فونز اور نقدی چھینے جانے کے آٹھ واقعات رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ تھانہ وارث خان اور تھانہ بنی میں بھی مختلف نوعیت کے سٹریٹ کرائمز کی شکایات درج ہوئیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران اسلام آباد کے ریڈو زون میں شہریوں سے موبائل فون اور نقدی چھننے کے واقعات پیش آئے۔
اسلام آباد کے کم از کم چار صحافی بھی ڈاکوؤں کا نشانہ بنے اور اپنے موبائل فونز اور نقدی سے محروم ہوئے۔
گزشتہ ہفتے 15 مئی کو راولپنڈی کے انتہائی مصروف چاندنی چوک میں ایک صحافی کو اس وقت ڈاکوؤں نے لوٹ لیا جب وہ وہاں موجود نجی بینک کی اے ٹی ایم سے رقم نکلوا رہے تھے۔
ادھر اسلام آباد میں سیکٹر جی سکس، جی 13 اور جی سیون سے بھی کچھ عرصہ قبل شہریوں کے لُٹنے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔
جرائم کا گراف نیچے آیا ہے: ترجمان راولپنڈی پولیس
راولپنڈی پولیس کے ترجمان سجاد الحسن نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’شہر میں کرائمز کی لہر آتی جاری رہتی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق ابھی کرائمز کا گراف ماضی کی نسبت ذرا نیچے آیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں بھی کر رہے ہیں اور بہت سی چوری کی گئی چیزیں برآمد بھی ہو جاتی ہیں۔ آج ہی ہم نے تھانہ ائیرپورٹ کی حدود میں ایک منشیات فروش کو پکڑا ہے جو سکولوں کے طلبہ کو منشیات بیچنے میں ملوث تھا۔‘
سجادالحسن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’پولیس کو موبائل فونز ٹریس کرنے کے لیے جن وسائل اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ انہیں مل جاتی ہیں۔‘
سٹریٹ کرائمز کو روکنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف تھانوں کو وہاں کی آبادی اور کرائم کی شرح کے لحاظ سے نفری دی گئی ہے۔ راولپنڈی کے نیو ٹاؤن تھانے میں 100 سے زیادہ اہلکار تعینات ہیں۔‘
’سٹریٹ کرائمز کو روکنے کے لیے محافظ، ڈولفن فورس کے علاوہ تھانے کی پولیس بھی ڈیوٹیاں دے رہی ہے جبکہ مختلف علاقوں میں نصب ہمارے کیمروں کو فوٹیج پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے۔‘
’اہم چوکوں میں ناکے لگے ہیں‘
موبائل چھیننے سمیت دیگر وارداتوں کے حوالے سے اردو نیوز کے سوال جواب دیتے ہوئے صادق آباد تھانے کے اہلکار محمد یونس نے کہا کہ ’نیو ٹاؤن اور صادق آباد تھانے کی حدود میں اس طرح کے جرائم زیادہ ہو رہے ہیں لیکن ہم وقتاً فوقتاً ملزموں کو گرفتار کر کے شناخت پریڈ کے لیے بھیجتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس علاقے میں بالخصوص دبئی پلازہ، صادق آباد سٹاپ، ٹرانسفارمر چوک سمیت اہم جگہوں پر ناکے بھی لگائے گئے ہیں۔‘
’اس کے علاوہ گلیوں میں پولیس کی پارٹیاں بھی گشت کرتی ہے اور ڈالفن پولیس بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی ہے۔‘
طاہر نعیم ملک اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے استاد اور تجزیہ کار ہیں۔ ان کے ساتھ دو دن قبل اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن کی حدود میں ڈکیتی کی واردات ہوئی۔ وہ اپنی گاڑی میں دو دوستوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ انہیں مسلح ڈاکوؤں نے آ لیا اور ان سے موبائل فونز اور نقد رقم چھین کر لے گئے۔
طاہر ملک نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان دنوں اس نوع کے جرائم میں اضافے کی عام وجہ تو یہی ہے کہ ’ملک کی معیشت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں کافی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔‘
’سٹریٹ کرمنلز موبائل فون کے پاسورڈز بھی لیتے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ ’پہلے موٹرسائیکلوں کی چوریاں زیادہ ہوتی تھیں جن سے جرائم پیشہ افراد کو 30 سے 40 ہزار روپے مل جاتے تھے لیکن اب ان کی توجہ مہگنے موبائل فونز پر ہے۔‘
’اب دیکھا یہ گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد آئی فونز چھین رہے ہیں۔ نئے آئی فونز کی قیمت چار سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف موبائل فون نہیں لیتے بلکہ گن پوائنٹ پر اس کا پاسورڈ بھی لیتے ہیں اور پھر فونز کی سیٹنگ تبدیل کر دیتے ہیں۔‘
’اگر نئے آئی فون کے پارٹس بھی مارکیٹ میں فروخت کیے جائیں تو یہ اڑھائی تین لاکھ میں بِک جاتے ہیں۔ اس لیے جرائم پیشہ افراد نے اسے شارٹ کٹ کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔‘
’تھانوں کا رویہ حوصلہ شکن ہے‘
طاہر ملک نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں پولیسنگ کا نظام ابھی تک بہت پرانا ہے۔ تھانوں میں عام آدمی کے ساتھ ہونے والی واردات کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جاتا اور دوسری بات یہ ہے کہ تھانوں کے اہلکاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایف آئی آر درج نہ ہو۔ تھانوں کا رویہ حوصلہ شکنی پر مبنی ہوتا ہے۔‘
صحافیوں کے موبائل فونز چھیننے اور ان سے پاس ورڈز لینے کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’صحافیوں یا سیاسی کارکنوں کے موبائل فونز میں اہم ڈیٹا بھی ہوتا ہے۔ اب یہ سوال ہے کہ پاس ورڈز لینے کا مقصد فون کھول کر اپنی مرضی کی سیٹنگ کرنا ہے یا پھر ڈیٹا کا حصول ہے۔ اس بارے میں ابھی کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔‘
’اب معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی جرائم پیشہ گروہ ایک دن میں دو تین آئی فونز لُوٹ لے تو وہ آسانی سے پندرہ 20 لاکھ روپے بنا لیتا ہے۔‘