وینٹج ریڈ ٹرک جسے عربی زبان میں بھی انگریزی لفظ ’لاری‘سے جانا جاتا ہے، آج سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں ثقافتی ورثے کی ایک محبوب علامت بن چکی ہے۔
1940 سے 1970 کی دہائی تک ان سرخ لاریوں کو جو عموماً امریکی کمپنیوں جیسے فورڈ کی ہوتی تھیں، نے ٹرانسپورٹیشن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت جب سفر کے ذرائع محدود اور حالات مشکل ہوتے تھے، ان گا ڑیوں نے دور دراز کے علاقوں کو بڑے شہروں سے جوڑنے میں مدد دی۔

مؤرخ عبداللہ الزہرانی نے سعودی پریس ایجنسی کو بتایا کہ’ مقامی رہائشی، سیاح اور زائرین طویل سفر کے لیے بڑی حد تک ان گاڑیوں پر انحصار کرتے تھے جو کئی دنوں تک جاری رہتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ ان سرخ لاریوں نے ٹرانسپورٹیشن میں ایک نیا موڑ متعارف کروایا جس نے خاندانوں اور بچوں کو سفر میں پہلے سے کہیں زیادہ سہولت اور آرام فراہم کیا۔ؑ‘
مسافروں کو لے جانے کے علاوہ یہ ٹرک مقامی معیشت کے لیے بھی اہم سمجھے جاتے تھے۔ یہ بازاروں اور تجارتی مراکز تک خوراک کی رسد پہنچاتے جس سے تاجروں کو کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسی اشیا منتقل کرنے میں مدد ملتی۔ اس سے دیہی تجارت اور مختلف علاقوں کے درمیان روابط مضبوط ہوئے۔

مقامی رہائشی سالم العبدعلی جن کے والد کبھی طائف کے جنوب میں واقع علاقوں میں سرخ لاری چلایا کرتے تھے، محبت سے اس کے سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلے ہوئے کپڑے کی چھت یاد کرتے ہیں جو مسافروں کو سخت موسم سے محفوظ رکھتی تھی۔
انہوں نے نے بتایا کہ’ اسے ایک منفرد سماجی مقام حاصل تھا کیونکہ یہ اونٹو ں کا اہم متبادل بن چکی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں کی یادوں، قصوں اور سفر کے دوران گائے جانے والے روایتی گیتوں کا حصہ بن گئی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس دور میں بعض ڈرائیور لوگوں کو بغیر کرایہ لیے بھی سفر کروا دیتے تھے جو اس زمانے کے باہمی تعاون اور کمیونٹی کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔‘