Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طوفان بپر جوائے کی ’رفتار میں کمی‘، ساحلی علاقوں سے انخلا مکمل

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا ہے کہ سمندری طوفان بپر جوائے کی رفتار میں کچھ کم ہوئی ہے۔
جمعرات کو این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ طوفان کا رخ مشرق کی طرف ہے تاہم یہ ہر گھنٹے اپنی رفتار اور رُخ تبدیل کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 100 ملی لیٹر بارش متوقع ہے جبکہ ٹھٹہ، سجاول بدین اور میر پور خاص میں شدید بارشوں کا امکان ہے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ حکومت نے ساحلی علاقوں سے انخلا کا عمل مکمل کر دیا ہے اور شہریوں کو 169 ریلیف کیمپوں میں پہنچایا گیا ہے۔
پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے نے کہا تھا کہ سمندری طوفان بپر جوائے آج سندھ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق طوفان کے پیش نظر پاکستان کے ساحلی علاقوں سے تقریباً 82 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
’سمندری طوفان بپرجوائے کیٹی بندر سے 181، کراچی سے 247 جبکہ ٹھٹھہ سے267 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں موجود ہے۔‘
این ڈی ایم اے نے بتایا کہ سمندری طوفان کے ممکنہ اثرات میں تیز آندھی، بارش اور سیلابی کیفیت شامل ہیں. ’تمام متعلقہ ادارے ہائی الرٹ پر ہیں. کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں شہری متعلقہ انتظامیہ سے رابطہ کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کریں۔‘
وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا کہ سمندری طوفان پاکستان اور انڈیا کی سمندری سرحد پر شمال مشرق میں بڑھ رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس کے اثرات سے شہریوں کو بچانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے گئے ہیں اور دوپہر میں اس کے ٹکرانے کا خدشہ ہے لوگ محفوظ رہیں اور سرحد کے لیے دونوں اطراف کے رہائشیوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے دُعائیں۔‘
بدھ کو رات گئے سمندری طوفان کے اثرات پاکستان کے ساحلی علاقوں میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔

’طوفانی پانی میں ہماری لانچیں اور دیگر سامان بہہ گیا‘

سمندری طوفان سے قبل علاقہ چھوڑ کر آنے والی صوبہ سندھ کے ساحلی مقام گھوڑا باڑی کی 38 سالہ رہائشی آمنہ بی بی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’طوفان کی وجہ اپنا گھر اور سامان چھوڑ کر یہاں سکول آ گئے ہیں۔ دو دن سے یہاں ہیں۔ انتظامیہ والے کہہ رہے ہیں ایک ہفتہ یہاں رہنا پڑے گا۔ ہم ضرورت کا سامان لے کر یہاں آ تو گئے ہیں لیکن گھر کی فکر ہے۔ گاؤں میں کسی سے اُدھار لے کر گھر بنایا تھا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ہمارا علاقہ بھی متاثر ہوا تھا۔ تین مہینے پہلے ہی اپنے گھر کو رہنے کے قابل بنا کر گھر آئے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مزدوری کرتے ہیں تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ اب ایک ہفتے سے کوئی کام نہیں کیا ہے جس کی وجہ مشکلات کا سامنا ہے اور اگر یہ طوفان کا پانی سیلاب کے پانی کی طرح علاقوں میں جمع ہو گیا تو ہم ایک بار پھر فاقوں پر چلے جائیں گے۔‘
بدین کے رہائشی محمد عمیر نے بتایا ہے کہ ’ہزاروں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں موجود ہے۔ انتظامیہ نے کھانے دیا ہے اور دیگر صرورت بھی پوری کر رہے ہیں لیکن طوفانی پانی میں ہماری لانچیں اور دیگر سامان بہہ گیا ہے۔ پولیس والے علاقے میں واپس نہیں جانے دے رہے۔ اب فکر ہے کہ ہمارے علاقے میں جو نقصان ہو رہا ہے وہ کیسے پورا ہو گا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمارا روزگار سمندر سے وابستہ ہے۔ جون جولائی میں سمندر تیز ہونے کی وجہ شکار پر پابندی ہوتی ہے۔ لانچوں کی مرمت اور دیگر ضروری کام انہی دنوں میں کیا جاتا ہے۔ اب تو لگتا ہے پابندی کھلنے کے بعد بھی سمندر میں جانے کے قابل نہیں ہوں گے۔‘
دوسری طرف انڈیا میں سمندری طوفان کے پیش نظر ریاست گجرات کے سوراشٹر اور کچ کے علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔

شیئر: