Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوات: جنگلی مشروم کھانے سے دو بہنوں کی موت،’وہ ایک خیالی دنیا بنا رہی تھیں‘

شانگلہ کے پہاڑوں میں اگنے والے خاص قسم کے مشروم مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے ایک ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹرز نو سالہ فجر کو بچانے کی جان توڑ کوشش کر رہے تھے۔ فجر کی بڑی بہن گیارہ سالہ وجیہہ پہلے ہی جان سے جا چکی تھی۔ ان دونوں کمسن بہنوں کا تعلق ضلع شانگلہ سے تھا مگر ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود بھی فجر بچ نہ سکی۔
چوگا کے علاقے میں رہنے والی یہ دونوں بہنیں اتوار کی صبح کو آپس میں کھیل رہی تھیں جب یہ حادثہ پیش آیا۔
کھیل ہی کھیل میں وجیہہ اور فجر اپنی والدہ کی نقل کرتے ہوئے کھانا پکانے کی ایکٹنگ کر رہی تھیں کہ اسی دوران انہوں نے مشروم کھا لیے جو جان لیوا ثابت ہوئے۔
دونوں بہنوں کی موت والدین اور خاندان کے لیے تو صدمہ ہے ہی لیکن اہلِ علاقہ کو بھی افسردہ کر دیا ہے۔
مشروم کو کھمبی بھی کہتے ہیں جو عموماً پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ پودا مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں یہ ایک پکوان کے طور پر بھی پسند کیا جاتا ہے۔
تاہم اس کی بے شمار اقسام ایسی بھی ہیں جو زہریلی ہوتی ہیں اور انسانی جسم کے لیے ضرر رساں ہونے کے علاوہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ 
بچیوں کے قریبی رشتہ دار رشید اللہ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ان کا خاندان طویل عرصے سے شانگلہ میں رہائش پذیر ہے اور اکثر گھر گھنے جنگلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان بچیوں کا گھر بھی پہاڑوں پر جنگلات میں ہی واقع تھا۔
’دوپہر کے 2 بجے یہ دونوں بہنیں گھر سے باہر نکلیں اور قریب ہی ایک سایہ دار درخت کے پاس بیٹھ کر کھیلنے لگیں۔ یہ دونوں اپنی والدہ کی نقل کرتے ہوئے کھانا بنانے لگیں۔ دونوں نے چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کیے۔ تین پتھر رکھ کر ایک تکون نما چولہا بنایا اور اس کے اوپر ایک پتھر رکھ کر یہ ظاہر کیا کہ چولہا اور توا تیار ہو گیا ہے۔‘
’اسی جگہ مشروم کے پودے بھی لگے ہوئے ہیں جو عموماً ساون میں بہت زیادہ تعداد میں اُگ آتے ہیں۔ ان کی نظر اسی طرح ایک مشروم پر پڑی جو دور سے انڈے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے وہ پودا اتار کر پتھر پر رکھ کر پکانا شروع کر دیا۔‘

مشروم سے ہلاک ہونے والی بچیوں کی عمریں نو اور گیارہ سال ہیں۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ

رشید اللہ کے بقول، ’کچھ وقت گزرنے کے بعد دونوں بچیوں نے یہ ظاہر کیا کہ انڈے تیار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کچے مشرومز انڈے سمجھ کر کھائے اور پھر کھیل کود میں مصروف ہوگئیں۔‘
’انہوں نے جب مشروم کھائے تو کچھ دیر بعد ان کی طبیعت بگڑنے لگی اور یہ دونوں بچیاں دوڑتے ہوئے گھر کی طرف چلی گئیں۔ گھر جا کر انہوں نے شکایت کی کہ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔‘ 
رشید اللہ کے مطابق جب بچیاں گھر واپس لوٹیں تو وہ ٹھیک سے کھڑی نہیں ہو پا رہی تھیں اور ان کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھیں، والد کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مشروم کھائے ہیں تھے۔
وجیہہ اور فجر کا گھر مرکزی شاہراہ سے پچیس منٹ کے فاصلے پر و ہے۔ ان کے والد فوری طور پر دونوں بہنوں کو ساتھ لے کر تحصیل پورن کے ٹی ایچ کیو ہسپتال روانہ ہوئے۔
رشید اللہ نے مزید بتایا کہ وجیہہ کی سانسیں راستے میں ہی رُک گئی تھیں لیکن فجر کو ہسپتال پہنچایا تو اس کی حالت کسی حد تک ٹھیک تھی۔ ہسپتال میں فجر کا معدہ صاف کیا گیا انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ بچی کو مزید علاج کے لیے سوات لے جانا مناسب رہے گا۔
’ہم تقریباً 8 بجے سوات کے لیے روانہ ہوئے اور 11 بجے سوات کے ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہو گئے اور فجر کا مزید علاج شروع ہو گیا لیکن رات کے 2  بجے اس کو ایک جھٹکا لگا اور اس کے ہاتھ مڑ گئے جس کے بعد وہ کچھ بول نہ سکی اور چل بسی۔‘
رشید اللہ کا کہنا ہے کہ اکثر بچے مشروم دیکھ کر دھوکہ کھا جاتے ہیں اس لیے سکولوں اور مدرسوں میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلانی چاہیے اور بچوں کو زہریلے مشرومز کے متعلق آگاہ کیا جائے۔
’جون کے مہینے میں یہ مشروم ہر جگہ اُگ آتے ہیں لہٰذا سکولوں میں بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا وقت کی ضرورت ہے ورنہ ناسمجھی میں بچے اسی طرح زہریلے مشروم کھا کر جان سے جاتے رہیں گے۔‘

بچیوں نے غلط فہمی میں زہریلی قسم والا مشروم کھا لیا تھا۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ

پاکستان میں مشروم کا استعمال اور کاشت 
تحصیل پورن میں مشروم کی تجرباتی کاشت کرنے والے تقی اللہ نے بتایا کہ پاکستان میں مشروم کی پچاس اقسام ایسی ہیں جو مختلف طریقوں سے کھائی جاتی ہیں، جن میں بٹر مشروم، اوئیسٹر، کنگ اوئیسٹر اور شٹاکی شامل ہیں جو برگر اور پیزا میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور ان کا سوپ بھی بنایا جاتا ہے۔
تقی اللہ کے مطابق خوراک کے علاوہ مشروم مختلف ادویات کی تیاری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
’مشروم میں پروٹین اور فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یہ وائرل بیماریوں کے علاج کے لیے مؤثر سمجھے جاتے ہیں۔ بلڈ پریشر، دل کے امراض، ناخن اور بالوں کے علاج میں بھی ان مشرومز کا استعمال عام ہے۔ تاہم ان میں سے کچھ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔‘
تقی اللہ نے بتایا کہ مشروم کی کاشت کے لیے کسی خاص موسم کی ضرورت نہیں، ہر موسم میں اُگ سکتے ہیں تاہم ساون میں نمی زیادہ ہونے کی بدولت ہر جگہ اُگ جاتے ہیں جبکہ اِن ڈور کاشت کے لیے ایک خاص درجۂ حرارت اور نمی چاہیے ہوتی ہے۔
شانگلہ کے پہاڑوں میں اگنے والا خاص مشروم
بھارت، چین اور جاپان میں مشروم کی کاشت عام ہے تاہم پاکستان میں زیادہ کاشت نہیں کیے جاتے۔ شانگلہ کے رہائشی پہاڑوں میں اُگنے والا ایک خاص قسم کا مشروم تلاش کر کے مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔
بخت زیب ضلع شانگلہ میں اسی قسم کے مشرومز کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کلو کے حساب سے خریدتے ہیں اور اس کی قیمت 30 ہزار روپے فی کلو تک جاتی ہے۔
’ایک کلو مشروم اکھٹا کرنا بھی مہینوں کا کام ہے کیونکہ ان کو دھوپ میں سکھانے کے بعد ہی خریدا جاتا ہے جس کے بعد اس کا حجم تو برقرار رہتا ہے لیکن وزن کم ہو جاتا ہے۔‘

شیئر: