Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور نے 3 ارب کی سولر بجلی بنائی، ’لاکھوں لگائے بِل اب بھی آتا ہے‘

لیسکو شہریوں سے بجلی 18روپے فی یونٹ خرید رہی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی تقسیم کار کمپنی لیسکو کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران شہریوں نے تین ارب روپے کی بجلی پیدا کر کے سسٹم کو دی۔
محمد اکمل کا تعلق لاہور سے ہے وہ گذشتہ برس سے اپنے گھر کو شمسی توانائی پر منتقل کر چکے ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میں نے گذشتہ سال 7 کلوواٹ کا سولر سسٹم اپنے گھر پر لگوایا جس کی مالیت 35 لاکھ روپے ہے۔ میرے گھر کی بجلی کی کھپت 5 کلوواٹ ہے۔‘
’میں نے اس لیے بڑا سسٹم لگوایا کہ کم سے کم بجلی کے بل سے مکمل جان چُھوٹ جائے گی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا اور اب بھی مجھے چار سے پانچ ہزار روپے کا بل آتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جس کمپنی سے انہوں نے سولر سسٹم لگوایا اس نے تخمینہ لگایا تھا کہ جتنی بجلی یہ بنائے گا یہ منافع بخش ہو گا۔‘
لیسکو کی سرکاری دستاویزات کے مطابق ایک سال میں لاہور کی حدود میں 16 کروڑ یونٹ بجلی سولر پینلز سے پیدا کی گئی اور سسٹم کا حصہ بنی۔
لیسکو نے شہریوں سے یہ بجلی 18 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدی جبکہ لیسکو دیگر ذرائع سے فی یونٹ 25 روپے میں خرید رہی ہے۔
ایک اور شہری محمد حسن نے اپنے گھر پر 10 کلوواٹ کا سولر سسٹم لگا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے بڑے بھائی آسٹریلیا میں رہتے ہیں جنہوں نے بتایا تھا کہ ان کی توانائی کا خرچ صفر ہے اور وہ اس سے منافع بھی کما رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے اسی سوچ سے ادھر بھی 50 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی لیکن یہاں تو صورت حال مختلف ہے۔‘
’ہمیں جو بات سمجھ آئی ہے کہ ابھی پاکستان میں ایک تو بجلی کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں رات کو چونکہ ہم سرکاری بجلی استعمال کرتے ہیں تو اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر کے بھی ہم اپنا بجلی کا بل صفر نہیں کر سکے۔‘

لاہور کے ایک شہری کے مطابق ’سولر سسٹم لگوانے کے باوجود اب بھی ان کا چار سے پانچ ہزار روپے بل آتا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

نیپرا کے ٹیرف کے مطابق پیک آورز میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت تقریباً 55 روپے ہے جبکہ آف پیک میں یہی یونٹ 38 روپے کا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کی اولین کمپنیوں میں سے ایک سکائی الیکٹرک کے مینیجر سیلز سید اصغر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت شمسی توانائی کا رجحان اپنے عروج پر ہے۔‘
’لیکن کیا لوگ پاکستان میں اضافی بجلی سے منافع کما رہے ہیں تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔‘
سید اصغر کے مطابق ’اس تصور کو گریڈ پیریٹی کہا جاتا ہے جس میں حکومت شہریوں سے بجلی خریدتی ہے اور انہیں منافع بھی دیتی ہے۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے سولر فارم لگائے ہوئے ہیں اور انہیں بطور کاروبار چلا رہے ہیں۔‘
’کچھ کمپنیوں نے بڑے سولر پلانٹس لگائے ہیں اور اپنے دیگر یونٹس کو بجلی مفت دے رہے ہیں، تاہم کاروبار کے لیے بجلی بنانے کی پالیسی ابھی اتنی سخت ہے کہ اس طرف ابھی کوئی نہیں آ رہا۔‘

شیئر: