Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تشنگانِ علم کو سیراب کرنیوالی ، حرم لائبریری

 خلیفہ المنصور کے عہد میں قائم کی گئی ،  اسے مکتبہ الحرم المکی کا  نام شاہ عبدالعزیز نے دیا تھا،5لاکھ کتابیں،  3ہزاررسائل اور8ہزار قلمی نسخے ہیں
 
اسلام کا پانچواں رکن حج نہ صرف یہ کہ قلب کو دنیا بھر کی آلودگیوں سے صاف کرنے اور اسے ایمانیات کی روشنی سے جگ مگ کرنے والا  عمل ہے۔ یہ مسلمانان عالم کی ذہنی، فکری اور ثقافتی تطہیر، تزکیہ اور  تقویت کا بھی انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ حج کے موقع پر  عازمین کو 3طرح کے مواقع نصیب ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ حج کے ایام میں مقامات حج پر حاضری کی توفیق عطا ہوتی ہے جس کی وجہ سے عازم حج اسلام کے پانچویں رکن کے مطلوبہ شعائر مطلوبہ شکل میں انجام دیتا ہے۔ دوسرا موقع اسے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب دنیا کے ہر گوشے ، سمت اور علاقے سے آنے والے علماء صلحاء ، فقہاء، سماجی و سیاسی و معاشی و دینی و سائنسی و تکنیکی امور کے نادر روزگار لوگوںسے ملنے کا موقع عطا ہوتا ہے وہ ان سے مل کر اپنے ذہن میں پائی جانے و الی علمی گتھیوں کو سلجھا سکتا ہے۔ تیسرا موقع  ایسی لائبریری کی شکل میں اسے حاصل ہوتا ہے جس سے امت کی نامور شخصیتوں نے استفادہ کرکے امت کو انمول اور مفید کتابوں کے نایاب ذخیرے عطا کئے۔
 
لائبریریاں دنیا بھر میں تعلیم یافتہ مہذب اقوام کی شناخت مانی جاتی ہیں۔ لائبریریاں کسی بھی قوم میں مطالعے کے رواج کا پیمانہ ہوتی ہیں۔ مسجد الحرام کی لائبریری مکہ مکرمہ کے اہم ثقافتی اور تہذیبی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا  کے اس شہر میں واقع ہے جسے مسلم دنیا اپنا مرکز مانتی ہے۔ یہ مقدس شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ 
 
مسجد الحرام کی لائبریری اسلامی دنیا کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ یہ خلیفہ محمد المہدی بن جعفر المنصور کے عہد میں 160ھ  میں قائم کی گئی تھی۔  اسے مکتبہ الحرم المکی الشریف کا  نام شاہ عبدالعزیز نے دیا تھا۔  انہوں نے مکہ مکرمہ کے علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔  اسے لائبریری کو  جدید خطوط پر منظم کرنے ، اسکے حالات کا جائزہ لینے اور شایان شان طریقے سے  اسے  ازسر نو تعمیر کرنے کی مہم تفویض کی گئی تھی۔  یہ لائبریری 1357ھ میں  شاہ عبدالعزیز ؒ کے دور میں قائم کی گئی تھی۔
 
 حرم مکی لائبریری کی داغ بیل مسجد الحرام کے ایک گنبد سے پڑی تھی جسے  اسو قت  حرم شریف کو  ہدیہ کئے جانے والے قرآن پاک کے نسخوں کی حفاظت کیلئے مختص کیا گیا تھا۔  اسے کتابوں کے  نذرانے بھی ملنے لگے  رفتہ رفتہ کتابوں کی  تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ لائبریری کیلئے علیحدہ  عمارت قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
 
  پہلی بار 1375ھ میں حرم شریف سے  باہر اسکی عمارت بنائی گئی۔ یہ 1385ھ تک وزارت حج و اوقاف کے ماتحت ہوا کرتی تھی۔ ایک زمانے میں اوقاف کا محکمہ  وزارت حج کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ بعد میں   وزارت اسلامی امور کے ماتحت کردیا گیا۔1385ھ میں حرم شریف کی لائبریری جنرل پریذیڈنسی کی تحویل میں دیدی گئی۔
 
حرم مکی شریف کی لائبریری المنصور اسٹریٹ پر   ہے۔  یہ اس عمارت میں ہے جو پہلے  رابطہ عالم اسلامی کی  ہوا کرتی تھی۔ لائبریری روزانہ صبح 7.30 بجے سے دوپہر 2.30بجے  اور پھر 3.30بجے سے  رات 10بجے تک کھلی رہتی ہے۔  جمعہ کو  بند رہتی ہے۔
 
 لائبریری میں خواتین اور بچوں کیلئے الگ الگ مقام بنائے گئے ہیں۔ زائرین کیلئے بڑا مطالعہ ہال ہے۔
 حرم مکی لائبریری کے کئی شعبے ہیں۔  ان میں کتابوں کی  فراہمی، فہرست سازی،  درجہ بندی ، قلمی نسخوں،  مطالعہ،  اخبارات ورسائل، تصویر اور مائیکرو فلم، صوتی لائبریری اور کتابوں کے تبادلہ جات کے شعبے قابل ذکر ہیں۔ لائبریری میں حرمین شریفین کا ایک  حصہ ہے۔ جس میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف سے متعلق کتابیں اور  مواد  جمع کیا گیا ہے۔5لاکھ سے زیادہ کتابیں لائبریری میں موجود ہیں۔ 3ہزار سے زیادہ رسائل ہیں۔ قلمی نسخوں کی تعداد 8ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں کچھ اصلی ہیں اور کچھ فوٹو کاپی کی شکل میں موجود ہیں۔ مائیکرو فلم کا شعبہ 4ہزار سے  زیادہ اہم قلمی نسخوں پر مشتمل ہے۔
 
 قلمی نسخوں کا شعبہ 
 
 لائبریری میں نایاب قسم کے قلمی نسخوں کا الگ ایک شعبہ قائم ہے۔  ان میں محمد بن عبداللہ  بن ابراہیم غیلان متوفی 354ھ کی کتاب ’’الغیلانیات‘‘ کا  قلمی نسخہ محفوظ ہے۔   یہ اس لائبریری کا سب سے پرانا قلمی نسخہ ہے۔ اس پر نقل کی تاریخ 5 ویں صدی ہجری کے اوائل کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ 11اجزاء   پر مشتمل ایک  جلد میں محفوظ قلمی نسخہ ہے۔
 
 حرم مکی کی لائبریری میں’’مجمع البحرین فی  زوائد المعجمین‘‘ کا  نسخہ بھی محفوظ ہے۔  یہ پوری دنیا میں  اس کتاب کا  واحد قلمی نسخہ ہے۔  یہ حدیث کی کتاب ہے۔   اسکے  مصنف علی بن ابی  ابکر  بن سلیمان الھیثمی متوفی 807ھ ہیں۔ اسکا ایک  اور نسخہ دمشق کی  الظاہریہ لائبریری میں محفوظ ہے  تاہم وہ ناقص ہے۔  دنیا بھر میں  واحد مکمل قلمی نسخہ صرف  حرم شریف کی  لائبریری میں ہے۔
 اس میں مصطفی حسن ہاشمی  متوفی 999ھ کا تصنیف کردہ  ایک  قلمی  نسخہ’’العلم  الزاخر فی احوال  الاوائل  والاواخر ‘‘کے  نام سے موجود ہے۔
  اسی طرح’’ الفہرست‘‘ کا قلمی نسخہ بھی ہے۔  یہ 438ھ میں  وفات پانے والے  محمد بن اسحاق المعروف با ابن ندیم کی  تصنیف ہے۔
 مسند الموطا کا قلمی نسخہ بھی  موجود ہے۔  یہ 385ھ میں  وفات پانے  والے  ابو القاسم عبدالرحمان بن  عبداللہ ا لنافعی کی  تصنیف ہے۔  اس پر693ھ کی  تاریخ پڑی ہوئی ہے۔ 
’’الفروسیہ والمناصب الحربیہ‘‘ قلمی نسخہ بھی  لائبریری میں رکھا ہوا ہے ۔ یہ نجم الدین حسن بن  الرماح  کی تصنیف ہے۔  (متوفی 780ھ) مصنف نے  اس میں مسلمانوں کے یہاں تلوار اور تیر  وغیرہ آلات اور  فنون حرب کا تذکرہ کیا ہے۔
’’ الدرہ الثمینہ فی فضل  المدینہ‘‘ کا قلمی نسخہ بھی ہے۔  یہ ابن النجار  متوفی  643ھ کی  تصنیف ہے۔
 لغت کی شہرہ آفاق کتاب  لسان العرب کا قلمی نسخہ بھی   یہاں رکھا  ہوا ہے۔ یہ  محمد بن مکرم بن  علی منظور  المتوفی 711ھ کی تصنیف ہے۔
 ’’قرۃ العیون فی  اخبار الیمن  المیمون‘‘ کا قلمی نسخہ بھی  لائبریری کی  زینت ہے۔   یہ عبدالرحمان ا لربیع متوفی 944ھ کی تصنیف ہے۔
 یہاں مصحف عثمانی کی  فوٹو کاپی بھی رکھی ہوئی ہے۔  یہ قرآن پاک کا  وہ نسخہ ہے  جو  خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد  میںلکھا گیا تھا۔  اس نسخے کی کاپی وسطی  ایشیا اور  قازقستان کے مسلمانوں کے  دینی ادارے نے 1411ھ میں  حرم مکی کی  لائبریری کو  ہدیہ کی تھی۔
 حرم مکی کی  لائبریری  ان پبلک  لائبریریوں میں سے ایک ہے جس کا  رخ طلباء اور  علماء پابندی سے کرتے ہیں۔  تاریخی صفحات بتاتے ہیں کہ حرم شریف میں 2گنبد ہوا کرتے تھے۔  ان میں سے ایک العباس سبیل کا  تھا  اور  دوسرا قرآن پاک کے نسخوں  اور  سپاروں کی حفاظت کیلئے تھا۔ اس لائبریری  کی  شروعات ایک  سادہ سے شوکیس سے  ہوئی تھی جس میں مصحف  عثمانی رکھا ہوا تھا۔
 
  لائبریری کے نئے ذخائر
لائبریری میں مختلف موضوعات پر نایاب اور قیمتی قلمی نسخے کثیر تعداد میں محفوظ ہیں۔ علاوہ ازیں تفسیر، حدیث ، فقہ، عربی لغت، تاریخ، سیرت مبارکہ،   تربیت، علم النفس، علم اجتماع،  جغرافیہ اور  اقتصاد کے موضوعات پر اچھا خاصابڑا  انتخاب موجود ہے۔  جدید اور  قدیم  طب کی کتابیں، نئے انسائیکلوپیڈیا اور  اخبارات و  رسائل بھی ہیں۔  فی الوقت لائبریری  ایک لاکھ کے  قریب کتابوں سے  مالا مال ہے۔
 
صوتی لائبریری
مکی حرم شریف کی لائبریری میں صوتی لائبریری بھی  قائم کی گئی ہے۔ اس میں مسجد الحرام کے دروس اور خطبات کے 50ہزار سے زیادہ کیسٹس جمع ہیں۔ اس میں مسجد الحرام میں دیئے جانے والے خطبات  اوردروس جمع کئے جاتے ہیں۔ زائرین اورمطالعے کے شائقین کو  آڈیو کیسٹس فراہم کئے جاتے ہیں۔ انکی تعداد  ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔  ان میں سے اکثر کو  سی ڈیز پر منتقل کردیا گیا ہے۔  توجہ طلب امر  یہ ہے کہ حرم مکی لائبریری آنے والے زیادہ تر وہ ہیں جو  صوتی لائبریری میں دلچسپی لیتے ہیں۔ طلباء ،  زائرین اور حج کے عازمین کو صوتی لائبریری کے ذمہ داران حرم شریف میں  دیئے جانے والے  دروس کے کیسٹ  مفت فراہم کرتے ہیں۔  اس لائبریری کے  ارباب مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف جنرل پریذیڈنسی گیٹ پرصوتی  لائبریری جاری کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
 
جدید ٹیکنالوجی
حرم مکی شریف کی  لائبریری جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے لگی ہے۔  اس میں کمپیوٹر سسٹم نصب ہے۔  یہ ریاض کے کنگ فیصل ریسرچ  اینڈ اسلامک اسٹڈیز سینٹر سے جڑا ہوا ہے۔ حرم شریف کی  لائبریری کو  انٹرنیٹ سے جوڑنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
 
لائبریری منتقل ہوتی رہی
حرم مکی لائبریری مختلف مقامات پر منتقل ہوتی رہی۔ایک زمانے میںیہ جرول میں کرائے کی عمارت میں ہوا کرتی تھی۔ حرم مکی کی توسیع کے بعد باب الملک عبدالعزیز کے سامنے نئی عمارت میں منتقل کی گئی۔ حرم شریف کی توسیع ہوئی تو عمارت منہدم کردی گئی اور پھر اسے جرول (التیسیر) منتقل کردیا گیا۔ ان دنوں یہ مکہ مکرمہ کی المنصور اسٹریٹ پر واقع کرائے کی ایک عظیم الشان عمارت میں ہے۔
حرم مکی لائبریری کئی نجی لائبریریوں کا مجموعہ ہے۔  یہ مختلف لائبریریوں کے مالکان  کے عطیات کا  ثمر ہے۔  ان لائبریریوں میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔
  امیر عبدالمحسن بن عبدالعزیزؒ کی  لائبریری کا ایک حصہ۔
شیخ علی الکیلانی کی  لائبریری،  یہ 642مطبوعہ کتابوں اور قلمی نسخوں پر مشتمل ہے۔  ا س میں نایاب کتابوں کی فوٹو کاپیاں بھی ہیں۔ یہ17جلدوں میں ہیں۔
  شیخ عبدالستار الدھلوی کی  لائبریری، یہ قلمی نسخوں اور علوم و  معارف کے موضوعات پر کتابوں اور قلمی نسخوں کا مجموعہ ہے۔  زیادہ تر شیخ عبدالستار الدھلوی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔
شیخ یاسین  العظمہ کی  لائبریری، یہ حرم کی  لائبریری کو  ہدیہ کی  جانے والی  بڑی لائبریریوں میں  سے ایک ہے۔یہ 5917نایاب کتابوں پر مشتمل ہے۔
شیخ اسماعیل حریری کی  لائبریری، یہ 2047کتابوں کا مجموعہ ہے۔
شیخ عبدالملک بن  ابراہیم آل الشیخ کی  لائبریری،  یہ  بڑی کتابوں کا مجموعہ ہے۔  اس میں 2673کتابیں ہیں۔
شیخ عبدالرحیم بن صدیق کی  لائبریری، اس میں  نایاب قلمی نسخے ہیں2حصوں میں ہیں۔ ان کی تعداد 2787ہے۔
  شیخ عبدالرحمان یحییٰ  المعلمی کی  لائبریری، اسکی کتابوں کی  تعداد 642ہے۔  ان میں قلمی نسخے بھی ہیں۔
  ڈاکٹر محمد رزیق کی لائبریری، اس کی کتابوں کی تعداد 1534ہے۔
شیخ سلیمان بن عبید کی  لائبریری، یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف  امور انتظامیہ کے سربراہ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔  انکی کتابوں کی تعداد 844ہے۔
شیخ عبداللہ بن عمر بن دھیش کی لائبریری، یہ مکہ مکرمہ میں شریعت عدالتوں کے  سربراہ رہ چکے ہیں۔
حرم مکی کے مدرس شیخ علی ہندی کی لائبریری۔
شیخ احمد العربی کی لائبریری 
ایک اور  لائبریری بھی حرم مکی کا  حصہ بنی ہوئی ہے جسکی کتابوں کی تعداد 352ہے۔
 
نایاب رسائل و اخبارات 
 مسجد الحرام کی لائبریری میں نایاب اخبارات و رسائل کا اچھا خاصا ذخیرہ  موجودہے۔ مثال کے طور پر برید الحجاز کا  پہلا شمارہ محفوظ ہے۔   اسکا پہلا شمارہ 1343ھ میں  شائع ہوا تھا۔ 
صوت  الحجاز کا پہلے سال کا  پہلا شمارہ بھی رکھا ہوا ہے۔ 1350ھ کا ہے۔
عرب اخبارات میں  الضیاء (1870-1898ء) المقطف (1315ھ)، المنار ،نوادر الاسلام (1349ھ)  ، المقتبس 1324ھ، نوادر الاسلام بھی محفوظ ہے۔
 
 

شیئر: