ہم لکھنے والے کہانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں، خاص کر ایسی کہانیاں جن میں زندگی دھڑکتی ہو، جذبات اور تحرک ہو اور وہ سماج میں کوئی چھوٹی بڑی تبدیلی لا سکیں۔ افسوس کہ بعض کہانیاں شروع میں دل کو خوش کن لگتی ہیں، مگر بعد میں ان کا طلسم اڑنچو ہو جاتا ہے، رنگ پھیکے اور دلکشی کافور ہو جاتی ہے۔
خوش قسمتی سے بعض کہانیاں ایسی بھی ہماری زندگی میں آتی ہیں جن کا جادو کبھی ماند نہیں پڑتا، رنگ مزید نکھر آتے اور دلکشی سِوا ہو جاتی ہے۔ آج ایسی ہی ایک کہانی کا ذکر ہے۔
ایک سچی روداد
یہ کہانی کوئی 18 برس قبل شروع ہوئی جب امریکہ کی ریاست ساؤتھ کیرولینا کے تاریخی شہر سمروائل کی ایک نو سالہ بچی کیٹی سٹیگلیانو کو اس کی سکول ٹیچر نے بند گوبھی کا بیج دیا۔ یہ ریاست غذائی قلت کا شکار تھی۔ ایک ریاستی پروگرام کے تحت سکولوں میں گوبھی اور بعض دوسری سبزیوں کے بیج بانٹے گئے تاکہ بچوں کی باغبانی میں دلچسپی پیدا ہو۔ کیٹی نے اپنے گھر کے چھوٹے باغیچے میں بندگوبھی کا وہ بیج اگا دیا۔
مزید پڑھیں
-
’احسان ‘ پلیٹ فارم پر ایک ارب 8 سو ملین ریال کے عطیات جمعNode ID: 887889
اس کے والدین نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے پودے کی خود دیکھ بھال کرے۔ دوسرے عام بچوں کی طرح ننھی کیٹی کو بھی اس میں مزا آیا، وہ بڑے شوق سے پانی وغیرہ دیتی رہی۔ امریکہ میں گوبھی کی بعض اقسام بہت وزنی اور بڑی گوبھی پیدا کرتی ہیں۔ کیٹی کے لگائے گئے بیج سے لگ بھگ 40 پونڈ وزنی گوبھی بن گئی۔
چیریٹی کچن
کیٹی کے والد کی عادت تھی کہ وہ ہر رات کو ڈنر سے پہلے ایک مختصر دعا کراتے اور بچوں کو نصیحت کے طور پر بتاتے کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ تم لوگ کھانا کھا رہے ہو جبکہ اسی شہر میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنا کھانا کھانے کے پیسے نہیں اور انہیں چیریٹی اداروں کے کچن سوپ پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور دن بھر میں یہ ان کا واحد کھانا ہوتا ہے۔
یہ باتیں ننھی کیٹی کے ذہن میں محفوظ تھیں، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ محنت سے اگائی گوبھی ایک ایسے ہی چیریٹی کچن کو گفٹ کرے گی۔ اس کی والدہ نے حوصلہ افزائی کی اور اس کے ساتھ ایک چیریٹی ادارے کے فری کچن پروگرام میں گئی جہاں ہر روز رات کو بے گھر اور نادار لوگوں کو سبزیوں سے بنا مفت سوپ تقسیم کیا جاتا تھا۔ کیٹی اپنی والدہ کی مدد سے اپنی اگائی ہوئی گوبھی بھی اٹھا کر ساتھ لے گئی۔
کیٹی جب وہاں گئی تو سوپ کے انتظار میں کھڑے لوگوں کی لمبی قطار دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ان مفلوک الحال لوگوں نے حیرت سے بچی کو دیکھا جو اتنی بڑی گوبھی لے آئی تھی۔ پوچھنے پر کیٹی نے بتایا کہ یہ اس نے خود اگائی ہے اور وہ اپنی مرضی سے ان کے سوپ کے لیے اسے لے آئی ہے۔ لوگوں کو یہ اتنا اچھا لگا کہ ان سب نے بیک زبان بلند آواز میں کیٹی کا شکریہ ادا کیا۔ چوتھی کلاس کی طالبہ کے لیے یہ بڑا خوشگوار امر تھا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کی معمولی سی کوشش اتنے لوگوں کو خوش کر سکتی ہے۔ اس کا دل خوش سے سرشار ہوگیا۔ اگلے روز ادارے کی منتظمہ نے فون کر کے کیٹی کی ماں کو بتایا کہ اس گوبھی کے سوپ سے پونے 300 کے قریب لوگ مستفید ہوئے۔ یہ نو سالہ بچی کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔

’کیٹی کراپس‘
کیٹی نے اس کے بعد ایک مہم شروع کی۔ اس نے اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز کو اس تحریک میں شامل کیا۔ ان سب نے اپنے گھروں کے باغیچے میں گوبھی، ٹماٹر اور دوسری سبزیاں اگانی شروع کیں، جو بعد میں مفت سوپ دینے والے خیراتی ادارے کو دے دی جاتیں۔ کیٹی کا مورال اس قدر بلند ہوا کہ ایک روز وہ اپنے سکول کی پرنسپل کے پاس ایک تجویز لے کر پہنچ گئی۔
پرنسپل پہلے تو حیران ہوئی، پھر اس نے چوتھی جماعت کی طالبہ پر اعتماد کا فیصلہ کیا اور سکول کا ایک بڑا گراؤنڈ کیٹی اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ وہاں پر سبزیاں اگا سکیں۔ یہ اس تحریک کا ایک اور فیصلہ کن موڑ تھا۔ ممکن ہے اگر سکول انتظامیہ بچی کی حوصلہ شکنی کرتی تو وہ دلبرداشتہ ہو کر بیٹھ جاتی۔ ان کے تعاون اور سپورٹ سے کیٹی کے جوش کو مہمیز لگ گئی۔ اس کی کوشش سے مقامی چرچ نے بھی ایک بڑا کھیت اس کے لیے مختص کر دیا۔ یوں کیٹی کراپس کے نام سے بہت سے ایسے کھیت بن گئے، جہاں سبزیاں اگا کر مستحق لوگوں میں تقسیم کی جاتیں یا پھر ان کو مفت کھانا اور سوپ فراہم کرنے والے اداروں کو دی جاتیں۔
کیٹی سٹیگلیانو کے کام نے انسپائریشن کی ایسی لہر پیدا کی کہ امریکہ کی 22 ریاستوں میں اس ماڈل کی پیروی کی جانے لگی۔ کیٹی کو کلنٹن ایوارڈ بھی دیا گیا۔ کیٹی نے اپنے پیج پر بہت سے خوبصورت بلاگز بھی لکھے۔
کہانی کا دوسرا حصہ
کیٹی سٹیگلیانو کی یہ کہانی میں نے کوئی لگ بھگ 12،13 سال قبل لکھی تھی۔ کسی مغربی جریدے میں یہ واقعہ پڑھا، کچھ ریسرچ کی اور پھر کیٹی سٹیگلیلانو کے بلاگز دیکھے، ’کیٹی کراپس‘ کی تفصیل پتہ چلی تو اس پر لکھ ڈالا، تب کیٹی کی عمر 12،13 سال تھی، اپنا کام وہ آگے بڑھا چکی تھی۔ اس روشن مثال، پرامید واقعے پر کالم لکھ ڈالا۔ پسند کیا گیا۔ ممکن ہے کہیں کسی نے اس سے موٹیویشن بھی لی ہو، یہی سوچ کر لکھا تھا کہ کسی نوجوان کے دل میں یہ ترازو ہو جائے کہ ایک نو سالہ امریکی بچی اپنے طور پر اتنی جدوجہد اور ایسا کام کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
آج 2025 میں، اواخر جولائی کے ایک حبس آلود دن، اچانک یہ کہانی یاد آئی۔ اپنی پرانی تحریریں، نوٹس وغیرہ چیک کر رہا تھا کہ کیٹی سٹیگلیانو پر لکھی تحریر نظر آئی۔ سوچا، چیک تو کریں کہ وہ آج کل کہاں ہے اور گزرے 12،13 برسوں میں وہ پرجوش، پرعزم بچی جو اب زندگی کےسفرمیں خاصا آگے جا چکی ہوگی، وہ اپنے خدمت خلق کے راستے پر موجود ہے یا دنیا داری اسے الجھا کر کسی اور طرف لے گئی؟

انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تو بڑی دل خوش کن معلومات سامنے آئیں۔ معلوم ہوا کہ کیٹی سٹیگلیانو کا کام، اس کا سفر جاری ہے۔ وہ اپنے اسی مشن پر گامزن ہے بلکہ اس گزرے ایک عشرے میں اس نے خاصی پیش رفت کی ہے۔ کئی عالمی ایوارڈز حاصل کیے ہیں، امریکہ کی بیشتر ریاستوں میں اس کے ادارے سے جڑے فری کچن کام کر رہے ہیں۔ اس تنظیم نے حالیہ برسوں میں نمایاں ترقی کی ہے اور اس وقت 33 ریاستوں میں 100 سے زائد کمیونٹی اور بیک یارڈ گارڈن چلا رہی ہے۔ ان گارڈنز کے ذریعے چھ لاکھ پاؤنڈ سے زائد تازہ سبزیاں ضرورت مندوں تک پہنچائی جا چکی ہیں۔
جون 2025 میں کیٹی کی کراپس کے فلیگ شپ گارڈن نے ایک ماہ میں ڈھائی ہزار پاؤنڈ سبزیاں اگائیں، جن میں ٹماٹر، بینگن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ فصل مقامی فوڈ بینکس، سینئر سینٹرز اور کمیونٹی ڈنرز میں تقسیم کی گئی۔
’کیٹی کراپس‘ نے گارڈن ٹو ٹیبل ڈنرز کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے، جس میں بچے خود اگائی گئی سبزیوں سے صحت بخش کھانے تیار کرتے ہیں اور انہیں کمیونٹی کے افراد تک پہنچاتے ہیں۔ یہ پروگرام پچھلے پانچ برسوں سے کامیابی سے جاری ہے۔
اس دوران کیٹی سٹیگلیانو کو ’جنرل ملز فیڈنگ بیٹر فیوچرز سکالر پروگرام‘ کی جانب سے 50 ہزار ڈالر کا سکالرشپ اور پھر ’نیشنل جیوگرافک یوتھ ایکسپلورر‘ کا اعزاز بھی دیا گیا۔ 2023 میں کیٹی سٹگیلیانو کو ’ساؤتھرنر آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا، جو جنوبی امریکہ میں نمایاں سماجی خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔
میں نے کیٹی سٹیگلیانو کے بعض حالیہ انٹرویوز دیکھے تو اس کی باتیں حوصلہ کن اور امید افزا لگیں۔ کیٹی کہتی ہیں: ’میں نے سیکھا ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک باغ ہو تو آپ کا مینو لامحدود ہوتا ہے۔‘
’ایک گرم اور صحت بخش کھانا کسی بھی بھوکے شخص کے لیے روحانی سکون کا باعث بنتا ہے۔ ہماری کھانے کی محفلیں نہ صرف جسم بلکہ روح کو بھی پرورش دیتی ہیں۔‘
’عمر صرف ایک عدد ہے، ارادہ اصل چیز ہے۔‘ کیٹی کے بقول ’اگر آپ مجھ سے پوچھتے جب میں نو سال کی تھی، تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک گوبھی کے عطیہ سے میری زندگی بدل جائے گی۔ عمر سے زیادہ اہم ارادہ ہے۔‘

ایک پوڈ کاسٹ میں کیٹی نے کہا کہ ’لوگوں کو مشورہ دیتی ہوں کہ اپنے دل کی سنو اور جس مقصد کے لیے جذبہ ہو، اس کی پیروی کرو۔ کیونکہ کبھی نہیں جانتے کہ ایک چھوٹا سا قدم کہاں تک پہنچا سکتا ہے۔ سب سے خوبصورت اور مسحور کن جملہ مجھے یہ لگا کہ ’ہم سبزیاں نہیں، محبت اگاتے ہیں۔‘ اور یہ کہ میں نے سیکھا ہے کہ چاہے آپ کتنے بھی کم عمر ہوں، آپ دنیا میں کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘
بحثییت لکھاری مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جو کہانی میرے آنگن میں 12،13 برس پہلے اتری، جسے میں نے سنوار کر، نکھار کر دل کے قلم سے رقم کیا۔ وہ کلی مرجھائی نہیں بلکہ پھول بنا اور اس کی مہک دور دور تک جا پہنچی۔
کیٹی سٹیگلیانو کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حالات جیسے بھی مشکل، کٹھن ہوں، آپ زندگی، سماج کے لیے اپنا مثبت کنٹری بیوشن کر سکتے ہیں۔ سیاست میں نہ سہی تو خدمت خلق کے ذریعے ہی سہی۔ دوسرے لوگوں کی زندگیاں آسان کر کے، ان کی مشکلات دور کر کے۔
کسی کارِ خیر میں عمر اور وسائل کی کمی کوئی عذر نہیں۔ چھوٹی سی کوشش بھی بڑا فرق ڈال سکتی ہے۔ یہ ہم نے بارہا دیکھا، آزمایا۔ آج کی یہ کہانی بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے، اسے سچ ثابت کرتی ہے۔