Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت کی پہلی ذمہ داری اس کا گھرہے، شگفتہ فرحت

وقت ، دوست اور رشتہ دار کی قدر کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ دنیا میں نہیں رہتے، ’’ہوا کے دوش پر گفتگو‘‘
* * * زینت شکیل۔جدہ* * *
مالک حقیقی نے انسان کو محبت کے سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔ جو اس سانچے میں ڈھل جاتے ہیں،وہ ساری کائنات اور اس میں بسنے والوں سے ایسی ہی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ اسکا حق ہے۔ اس ہفتے ’’ہوا کے دوش‘‘ پر اویس ادیب انصاری اور ان کی اہلیہ شگفتہ فرحت سے ملاقات ہوئی۔ موضوعِ گفتگو یہی تھا کہ انسان حب الوطنی کا قرض کیسے چکائے۔ شگفتہ فرحت نے کہا کہ انسان نجانے کیا کچھ سوچتا رہتا ہے ، کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے ، مستقبل کو سنہرا بنانے کیلئے بہترین ہدف مقرر کرتا ہے اور ان اہداف کو پورا کرنے کیلئے کتنی تگ و دو کرتا ہے لیکن اچانک ذہن میں یہ بات خیال بن کرآجاتی ہے کہ ہم ان لوگوں کیلئے بھی کچھ کریں جنہوں نے ادبی، علمی اور ثقافتی سطح پر لوگوں کو نوازا۔
اس تحقیقی کام میں چونکہ محنت کے ساتھ خلوص کا بھی عمل دخل ہے تو جب انسان اپنی مٹی سے، اپنے وطن سے محبت کرتا ہے تو اس میں بسنے والوں کیلئے بھی دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ان تمام لوگوں کی مقدور بھر پذیرائی کا ارادہ کیا جو ممکن ہوسکا۔ شگفتہ فرحت جو کراچی پریس کلب کے علاوہ، اسٹینڈنگ کمیٹی پیام پاکستان، ساکنانِ شہر قائد عالمی مشاعرہ کمیٹی اور اہل کراچی جشن کمیٹی کی رکن ہیں۔ اسکے ساتھ وہ محبانِ بھوپال فورم کی بانی اور چیئر پرسن بھی ہیں۔
جب تذکرہ مشاعروں کا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ہم مختلف جگہوں سے آنے والے شعرائے کرام اور ادیبوں کے اعزاز میں مشاعرہ منعقد کرتے ہیں تاکہ انہیں پذیرائی ملے اور مقامی لوگوں کو ادبی و علمی ماحول سے خوشگواریت کا احساس ہو۔ محبان بھوپال فورم کی بنیاد کیونکر رکھی گئی اور اسکے اسباب کیا تھے، اس کے بارے میں شگفتہ فرحت نے بتایا کہ مجھے اپنے آباء واجداد کی سرزمین بھوپال سے بے پناہ محبت ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ بھوپال کا سفر بھی کیا تھا لیکن چونکہ میں بہت چھوٹی تھی، اس لئے زیادہ کچھ یاد نہیں۔
والدین کی جاہِ پیدائش بھوپال کے تذکرے اور قصے سن سن کر میں نے اپنے آپ کو بھوپال میں محسوس کیا۔ اس دوران دل میں یہ تحریک اور خواہش زور پکڑتی رہی کہ نوجوانانِ بھوپال کی کوئی ایسی انجمن یا پلیٹ فارم ہونا چاہئے کہ بھوپال سے باہر مقیم بھوپالیوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔باہم میل جول کے لئے محفلیں منعقد کی جائیں اور بھوپال سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ایوارڈ پیش کئے جائیں تاکہ ان کی تقلید میں نوجوان بھوپال آگے آئیں۔ اس مقصد کے پیش نظر میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جولائی 1983 ء میں بھوپال یوتھ کونسل آف پاکستان کی بنیاد رکھی پھر اس پلیٹ فارم سے پذیرائی تقاریب جو ان شخصیات کے لئے منعقد ہوتی رہیں جنہوں نے ادبی ، تعلیمی، علمی اور تحقیقی میدان میں بھی مقام حاصل کیا۔
٭٭آپ کا بچپن کیسا گزرا ؟ شرارتی تھیں یا ادبی کہانیوں میں دل لگتا تھا۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ بچپن تو کراچی میں ہی گزرا۔
والد وجیہہ الدین انصاری’’علیگ‘‘ اور والدہ ساجدہ بیگم فرحت بھوپالی دونوں کی خواہش تھی کہ ہم تینوں بھائی بہن ،ادبی مشاغل اختیار کرلیں۔ یہی وجہ تھی کہ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ادبی ماحول میں رہیں۔ چھٹی جماعت سے بچوں کے ماہ نامے کے علاوہ متعدد اخبارات اور رسالوںمیں کہانیاں مضامین اور رپورٹیں لکھنے کا آغاز کیا۔ اسکول یونین میں بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئی۔ علاوہ ازیں لگاتار اپنی جماعت کی بلامقابلہ نمائندہ منتخب ہوتی رہی۔ کالج کی جانب سے انٹر کالجیٹ مقابلہ مضمون نویسی میں پورے کراچی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ کالج یونین میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ کالج ڈسپلن کمیٹی، لائبریری کمیٹی اور نیشنل ویمن گارڈز میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ بہترین ادبی خدمات انجام دینے پر انعام و اسنادحاصل کیں۔
٭٭آپ نے ’’کام ، کام اور کام‘‘کا جو فارمولا اختیار کیا ہے اس میں شریک حیات کا تعاون بھی شامل حال رہاہوگا؟ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ جب تک گھر والوں کی طرف سے حوصلہ افزائی نہ ہو، انسان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اویس ادیب انصاری جو خود بھی مشہور ادبی، سماجی اور ثقافتی شخصیت ہیں، بھوپال انٹرنیشنل فورم اور محبان بھوپال کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی میں کسی تقریب کا منعقد کرنا اور اسکا ہر طرح سے بہترین طور پر انجام پاجانا کسی اہم معرکے سے کم نہیں، خاص طور پر جب حالات ایسے ہوں کہ لوگوں میں بے چینی اور ایک ان دیکھا خوف پایاجاتا ہو، ہرروز کچھ نہ کچھ ہوجانے کادھڑکا لگا ہو لیکن صد شکر کہ اب حالات پرسکون ہورہے ہیں اور لوگ روزگار کے علاوہ ذہنی و جمالیاتی احساسات کو زیادہ بہتر طور پر محسوس کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ ہر زمانہ اپنی متضاد چیزوں کا مجموعہ رہا ہے۔ ہر زمانے میں آسانیاں بھی ملتی ہیں اور لوگوں کی کاوشوں کو سراہا بھی جاتا ہے۔ جب کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے توچند روز کے اندر اندر زندگی معمول پر جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے اپنے معمولات سے وقت نکالتا ہے اور ادبی، علمی اور تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لے کر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرتا ہے۔
٭٭آپ کی کتاب ’’تذکرہ شخصیاتِ بھوپال‘‘ جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، شائع ہوئی۔ اسکے علاوہ ’’تذکرہ شعرائے بھوپال‘‘ اور’’ قومی یکجہتی میں این جی اوز کا کردار‘‘ نامی کتابوں پر کام جاری ہے۔آپ اتنا وقت کیسے نکالتی ہیں؟ جب آپ کام کرنے کا ارادہ کرلیں تو ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری بیٹی ربیعہ انصاری جو کالج کی طالبہ ہے، میرے کام میں کافی حد تک مدد گار بنی رہتی ہے چونکہ گھر کا سکون انسان کی سرگرمیوں میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے تو گھر کا ماحول پرسکون بنانے میں تمام افراد خانہ کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے کام وقت پر انجام دیں تو زندگی میں آسانیاں ملیں گی۔
٭٭محترمہ شگفتہ فرحت سے سوال کیا کہ وہ کیا خاص جملے، باتیں یا حکایتیں ذہن میں موجود رہتی ہیں جو اکثر ہمیں اچھا بننے پر اُکساتی ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا کہ ہر دور کی چیزیں ذہن نشین ہوتی رہتی ہیں لیکن ابھی جو بات ذہن میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ وقت ، دوست اور رشتہ دار ہمیں مفت ملتے ہیں، ان کی قدر وقیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ دنیا میں نہیں رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے تو دل بھی مطمئن رہتا ہے اور نعمتوں کا درست استعمال بھی ہوتا ہے۔
٭٭ادب کے بارے میں سوال پر محترمہ شگفتہ نے کہا کہ دراصل زندگی اور ادب و ثقافت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کو پوری زندگی نبھاتے ہوئے گزارنا ہوتاہے۔ ہر انسان جہاں رہتا ہے ، وہ وہیں کی ثقافت، زبان اور ادب کا سفیر بن جاتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ثقافتی کارکردگی انسانیت کی ضامن ہے۔ مجموعی طور پر انسان کی ناآسودگی اور کسی مقام پر قانع نہ ہونے کی صفت اسکے بنانے اور بگاڑنے کی ذمہ دار ہے۔ یہ خیر کی طرف متوجہ ہوجائے تو صحراء کو گلزار بنا دے اور شر کی طرف جھک جائے تو دنیا کو جہنم زار کردے۔ یہ صفت قدرت نے انسان کو عطا کی ہے۔
٭٭ آپ کے گھرانے میں آپ جیسی ادبی شخصیات سے محبت رکھنے والے اور کون کون ہیں ؟ شگفتہ فرحت نے اس بارے میں بتایا کہ یہ تو ہر انسان کے اندر موجود ہے کہ ہم ادب، ثقافت، زبان اور رسم ورسواج کو اپنے ساتھ لیکر ہی چلتے ہیں۔ زندگی کی مشغولیت سے وقت نکال کر اس طرف توجہ بھی دیتے ہیں ۔ میرے والدین نے اسکا اہتمام کیا کہ بچپن سے ہی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی افادیت سے روشناس کرایا۔ ہمارے بھائی ڈاکٹر شکیل الدین انصاری اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے بہت زیادہ وقت نہیں نکال پاتے لیکن انہیں ادب سے لگاؤ ہے اور بہترین ادباء و شعراء کی کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ بہن شائستہ فرحت نے چونکہ صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے چنانچہ انہیں تعلیمی، تحقیقی اور مطالعاتی مشغولیت بہت بھاتی ہے۔ وہ عمومی طور پر طالبات کو مطالعہ کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو مطالعہ کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے۔
آج ہم سب لوگوں نے فقط نصاب کی کتابوں کو کافی سمجھ کر کسی اور کتاب کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ ہماری اکثریت صرف وہی چیز دیکھ اور پڑھ رہی ہے جو ہمارے ظاہری روشن خیال میڈیا کے ذریعے اور سوشل نیٹ کے ذریعے پڑھا ئی اور سکھائی جا رہی ہے۔ ویسے اگر فیصلہ ذہن سے کیاجائے تو وہ سب بھی اچھی چیزیں ہیں۔ یقینی طور پر پھل دار درخت کے ساتھ ساتھ بے شمار گھاس پھوس بھی موجودہوتا ہے جسے ہم اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ جن کو اپنی ذہانت استعمال کرنی ہو وہ یہی فارمولا میڈیا ورلڈ وائیڈ ویب سائٹس کیلئے استعمال کریں۔ شگفتہ فرحت نے کہا کہ عورت کی پہلی ذمہ داری اس کا گھرہے اور پھر اسے وقت ملے تو لوگوں کو اصلاحی و علمی رجحان کی طرف توجہ دلائے اور خود بھی صحت مند مشاغل اپنائے۔ اس سے مجموعی طور پر معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہوگا۔ اویس انصاری نے اس موقع پر کہا کہ میری اہلیہ شگفتہ فرحت بہت رحمد ل خاتون ہیں۔ دوسروں سے ہمدردی رکھتی ہیں۔ اچھے رجحانات لے کر چلتی ہیں۔ دوسرے کے اچھے کاموں کی پذیرائی میں آگے آگے رہتی ہیں۔ وطن کی محبت سے انکا دل معمور ہے۔ انکی تصنیف شدہ کتابوں اور آنے والے رسائل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرحت ایک محنتی اور اپنے کام میں مگن رہنے والی شخصیت ہیں۔وہ دوسروں کی عزت کرتی ہیں اور اپنی عزت و احترام کرانا جانتی ہیں۔

شیئر: