Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

35 برس قبل انتخابات میں ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ اور ’الیکٹیبلز‘ کی اہمیت کا مطلب کیا تھا؟

35 برس قبل مجبوری کو جواز بنا کر پی پی پی نے اپنے منشور سے ہٹ کر الیکٹیبلز کو پارٹی میں جگہ دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں اگلے سال فروری میں ہونے والے متوقع انتخابات کے بارے میں جاری بحث و مباحثے میں کچھ الفاظ اور اصطلاحات تواتر سے استعمال ہو رہی ہیں۔
باقاعدہ الیکشن مہم سے قبل ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘، ’الیکٹیبلز‘ اور ’الیکشن پولز‘ جیسی انتخابی اصطلاحات کے گرد گھومتی بحث شاید کچھ لوگوں کے لیے نئی ہو۔
آج سے ٹھیک 35 برس قبل 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات کے ماحول، مد مقابل قوتوں کے بیانات اور منظر عام پہ آنے والے رجحانات اور نتائج کا جائزہ ماضی اور حال کی کچھ مماثلتوں کو واضح کرتا ہے۔
گذشتہ 35 برسوں میں اگرچہ بہت ساری سیاسی حقیقتیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ انتخابات کی سائنس میں نئی اختراعات نے پرانے انتخابی حربوں کو متروک کر دیا ہے۔ مگر پاکستان کے انتخابی ڈھانچے اور سیاسی سماجیات میں ماضی کی جھلک اور کچھ روایات کا تسلسل اب بھی موجود ہے۔
مئی 1988 میں محمد خان جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد ملک میں نگراں صوبائی وزرائے اعلٰی کے علاوہ نگراں وفاقی کابینہ بھی موجود تھی۔ مگر نگراں وزیراعظم کوئی نہیں تھا۔
ان حالات میں لگ رہا تھا کہ پاکستانی قوم کو ایک اور غیر جماعتی الیکشن سے گزرنا پڑے گا۔ مگر صدر ضیاء الحق  کی حادثاتی موت نے ملک کو جماعتی انتخابات کے راستے پر ڈال دیا۔
یہ انتخابات اس حوالے سے عدلیہ کی زیر نگرانی ہوئے کہ اس وقت کے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج تھے۔
سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے الیکشن کمیشن کے ممبر تھے۔ جبکہ اس کے تیسرے ممبر جسٹس عبدالرزاق تہیم بھی سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے۔

2024 کے انتخابات سے قبل الیکٹ ایبلز ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

نو ستاروں کا نیا بھیس 
آج کے سیاسی منظر نامے میں مختلف جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد کے امکانات اور توقعات موضوع بحث رہتی ہیں۔ 35 برس قبل بننے والے سیاسی اتحادوں کے پیچھے بھی مختلف عوامل کار فرما تھے۔
’نو ستارے نیا بھیس بدل کر سامنے آ گئے ہیں‘ مولانا شاہ احمد نورانی کا یہ تبصرہ ان انتخابات کے لیے بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں تھا۔
1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف بننے والے انتخابی اتحاد ’پاکستان قومی اتحاد‘ میں شامل نو جماعتوں کی طرح آئی جے آئی میں بھی نو سیاسی جماعتیں اور گروپس شامل تھے۔ شعوری یا لا شعوری طور پر انہوں نے ماضی کی روایت کے احیاء کے لیے اس اتحاد کے پرچم پر بھی نو ستارے بنا رکھے تھے۔
بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کے دو اہم سیاسی رہنماؤں نے اس اتحاد سے ہٹ کر الگ سیاسی راستہ چنا۔
اصغر خان کی تحریک استقلال اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان نے دیگر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پاکستان عوامی اتحاد تشکیل دیا۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غیر سیاسی قوتوں کی اشیر باد سے وجود میں آیا۔ اس مفروضے کی تصدیق مسلم لیگ کے سابق سیکریٹری جنرل اقبال احمد خان کے اعترافی بیان سے ہوتی ہے کہ آئی جے آئی کی تشکیل میں جنرل حمید گل کا ہاتھ تھا۔
صحافی منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے طویل انٹرویو میں اقبال احمد خان بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ جونیجو گروپ پاکستان عوامی اتحاد میں شامل ہونے جا رہا تھا مگر آخری وقت میں اس کا میاں محمد نواز شریف گروپ کے ساتھ ادغام ہو گیا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں متحدہ مسلم لیگ کے علاوہ اس اتحاد میں جماعت اسلامی اور نیشنل پیپلز پارٹی قابل ذکر جماعتیں تھی۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جمہوریت کی تحریک چلانے والی جماعتوں نے بھی ایم آر ڈی کو انتخابی اتحاد بنانے سے گریز کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور ولی خان نے اپنی اپنی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا۔

1988 کے انتخابات عدلیہ کی زیر نگرانی ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

لیول پلیئنگ فیلڈ کسے میسر تھی؟
آج کے انتخابی منظر نامے میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح تسلسل سے استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے ساتھ سیاسی سلوک پر شکوے اور تشویش کے لیے اسی لفظ کا سہارا لیتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنے خدشات اور نتائج کے ممکنہ منظر نامے کے بارے میں ہونے والی پیشگوئیوں پر رد عمل کے لیے نئی رواج پانے والی اس اصطلاح کو اظہار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔
آج سے 35 برس قبل اگرچہ یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوئی مگر اس دور کے حکومتی اور سیاسی انتظام سے صاف جھلک رہا تھا کہ کسے لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہے اور کون اس سے محروم ہے۔
اُس وقت نگراں وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ایوان  صدر طاقت اور اختیارات کا مرکز تھا۔ جہاں دیدہ اور اپنے اختیارات کی طاقت سے آگاہ غلام اسحاق خان سیاسی پسند اور ناپسند سے مبرا نہ تھے۔ وہ اپنے آپ کو ماضی کے نظام کے محافظ کے طور پر پیش کرتے تھے۔
انتخابات میں ملک کے چار میں سے تین نگراں وزرائے اعلٰی الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر حصہ بھی لے رہے تھے۔ پنجاب سے نواز شریف، سرحد سے جنرل ریٹائرڈ فضل حق اور بلوچستان سے ظفر اللہ جمالی پورے حکومتی اختیارات سے اپنی مہم چلا رہے تھے۔
وفاقی حکومت کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ وفاقی کابینہ کے نگراں سینیئر وزیر بذات خود انتخابی میدان میں موجود تھے۔ ان کے ساتھ نگراں وفاقی وزیر داخلہ، نگراں وزیر اطلاعات، نگراں وزیر تعلیم، نگراں وزیر صحت اور نگراں وزیر مذہبی امور اپنے اپنے حلقوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ اسی طرح بہت سارے صوبائی نگراں وزراء بھی الیکشن کی دوڑ میں شامل تھے۔
موجودہ انتخابی قوانین کی رو سے وفاقی اور صوبائی وزراء الیکشن کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے مگر اس دور میں ایسا ضابطہ موجود نہ تھا جس نے حکومتی عہدے داروں کو انتخابی میدان کو ہموار کرنے یا مخالفین کے لیے کھردرا بنانے کا اختیار سونپ دیا تھا۔
آج کی سیاسی فضا میں عدالتوں کے فیصلوں کو بھی کچھ لوگ سیاسی جماعتوں کے لیے فائدے یا نقصان کے میزان میں تولتے ہیں۔ 
1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ووٹ ڈالنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کی لازمی پابندی کو اپنے خلاف ایک حربے سے تعبیر کیا۔ ان کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والے زیادہ افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں شناختی کارڈ بنوانے کا رجان کم تھا۔
پیپلز پارٹی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے اس قانون کو خلاف ضابطہ قرار دیا۔ مگر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ ختم کر کے شناختی کارڈ کی پابندی کو بحال کر دیا۔

 پی پی پی نے ووٹ ڈالنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کی شرط کی مخالفت کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

الیکٹیبلز اُس وقت بھی ضروری تھے 
 مسلم لیگ ن میں الیکٹیبلز کی بڑی تعداد میں شمولیت نے ثابت کیا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں ان افراد کو ناگزیر خیال کرتی ہیں۔
35 برس قبل اسی مجبوری کو جواز بنا کر پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور اور مزاج سے ہٹ کر ایسے الیکٹ ایبلز کو اپنے ہاں جگہ دی۔
پیپلز پارٹی کے سب سے بڑے سیاسی مخالف ضیاء الحق کی کابینہ کے نو سابق وزراء کو پیپلز پارٹی نے اپنا ٹکٹ دیا۔
سید یوسف رضا گیلانی، رانا نعیم محمود، قاضی عبدالمجید عابد، سید ظفر علی شاہ اور احسان الحق پراچہ اس دور کے ایسے الیکٹیبلز تھے جنہوں نے مارشل لا حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی صفوں میں اپنی جگہ بنا لی۔
خواجہ طارق رحیم، راؤ افضل، چوہدری ادریس، یوسف صلاح الدین، چوہدری الطاف اور سعید الرشید عباسی سمیت ضیاء الحق کی تخلیق کردہ مجلس شوریٰ کے نو اراکین اس انتخابی معرکے میں تیر کے انتخابی نشان پر حصہ لے رہے تھے۔
ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات نے برادری اور قبیلہ، سیاسی دھڑوں اور کاروباری امراہ پر مشتمل الیکٹیبلز کی نئی سیاسی کلاس پیدا کر دی تھی۔
پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مگر 1988 میں اس نے گذشتہ اسمبلی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 11 سابق اراکین کو اپنی پارٹی میں شامل کر کے انتخابات کا حصہ بنایا۔
ٹیلی ویژن پر مناظرے کا چیلنج  
گذشتہ ایک عشرے سے الیکشن انتخابی میدان کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن کی سکرین پر بھی لڑے جا رہے ہیں۔ 35 برس قبل پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا وجود نہ تھا مگر اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے مخالفین کو پاکستان ٹیلی ویژن پر مناظرے کا چیلنج دیا۔
پاکستان میں تمام انتخابات میں مخالفین کی ذاتی اور سیاسی زندگی کو ہدف بنانے کی روایت موجود رہی ہے۔ اگلے سال کے متوقع انتخابات کے لیے مختلف سیاسی شخصیات کے ماضی اور ملک سے وفاداری پر سوالات میڈیا اور سوشل میڈیا پر مہم کا حصہ ہیں۔
1988 کے الیکشن کی گرما گرمی میں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ ہماری انتخابی تاریخ کا حصہ ہے۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذات اور ان کی جماعت اس کا خصوصی ہدف تھی۔

ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں سیاسی دھڑوں اور کاروباری امراہ پر مشتمل الیکٹیبلز کی نئی سیاسی کلاس پیدا ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے سیاسی مخالفین نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو انتخابات کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔ اخبارات میں ایسے اشتہارات شائع کروائے گئے جس میں انہیں ایٹمی پروگرام کا مخالف ثابت کرنے والا مواد شامل کیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے جواب میں سیاچن کے بارے میں ضیاء الحق کے بیان پر مبنی اشتہار سے اس پراپیگنڈا کو غیر موثر کرنے کی حکمت عملی بنائی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو ایٹمی پروگرام کے بارے میں مناظرے کا چیلنج دیا۔
میاں محمد نواز شریف نے ان کا چیلنج قبول کر لیا اور انہیں جلسہ عام میں مناظرہ کرنے کی دعوت دی۔ اس دور کے ایک اخباری گروپ نے بھی دونوں فریقوں کے مناظرے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے کی پیشکش کی مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کا اصرار تھا کہ مناظرہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کے ان پڑھ افراد بھی حقیقت حال سے باخبر ہو سکیں۔
’دونوں وزیراعظم ہار گئے‘
16 نومبر کو قومی اسمبلی کے 207 حلقوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن 19 نومبر کو منعقد ہوئے۔ تمام جائزوں اور اندازوں کے برعکس بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے۔
’دونوں وزیراعظم ہار گئے‘ بے نظیر بھٹو نے یہ فقرہ آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی اور سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کی شکست کے بارے میں کہا تھا۔
وزارت عظمیٰ کی دوڑ کے ان دو امیدواروں کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز طور پر 1977 کی پی این اے تحریک کے تمام مرکزی قائدین ان انتخابات میں شکست سے دوچار ہو گئے۔
پیر پگاڑا، پروفیسر غفور احمد، ایئر مارشل اصغر خان، علامہ شاہ احمد نورانی اور شیر باز مزاری کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

1988 کے انتخابات میں نواز شریف لاہور اور سیالکوٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سے بڑھ کر نگراں وفاقی وزراء کی شکست نے مارشلائی حکومت سے عوام کی بیزاری ثابت کی۔ سینیئر وزیر اسلم خٹک، وزیر داخلہ نسیم اھیر، وزیر اطلاعات الٰہی بخش سومرو، وزیر صحت میر ہزار خان بجارانی، وزیر تعلیم وزیر احمد جوگیزئی مخالفین کے ہاتھوں ہار گئے۔
صوبائی انتخابات میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے نگراں وزیر اعلٰی جنرل ریٹائرڈ فضل حق چار سیٹوں پر ناکام ہوئے۔ اسی طرح سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ بھی ہارنے والوں میں شامل تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاہور، کراچی اور لاڑکانہ سے کامیابی حاصل کی۔ میاں محمد نواز شریف لاہور اور سیالکوٹ سے کامیاب جبکہ ملتان کی سیٹ ہار گئے۔
اس معرکے کا ایک دلچسپ پہلو پاکستان کی بری، فضائی اور بحری افواج کے تین سابق سربراہوں کا کامیاب نہ ہونا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ٹکا خان، فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل نور خان اور بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل کرامت نیازی ہارنے والوں میں شامل تھے۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے 93 اور اسلامی جمہوری اتحاد نے 54 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم نے حیرت انگیز طور پر کراچی کی 13 میں سے 12 سیٹیں حاصل کر لی۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کے حصے میں سات نشستیں آئیں۔ پاکستان عوامی اتحاد تین اور عوامی نیشنل پارٹی دو حلقوں میں کامیاب ہوئی۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا تمام ایئرپورٹس بند کرنے کا حکم 
حالیہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والا انتخابی اتحاد خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم نے الیکشن سے قبل کسی سیاسی جماعت سے اتحاد کیا ہے۔
1988 کے انتخابات کے اگلے روز میاں محمد نواز شریف اچانک کراچی جا پہنچے۔ انہوں نے الطاف حسین سے حکومت سازی کے لیے تعاون مانگا مگر اس وقت ایم کیو ایم نے حکومت بنانے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اگلے سال نومبر میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔

بےنظیر بھٹو 20 ماہ کے حکومتی سفر کے دوران اسمبلیوں میں اپنی اکثریت بچانے میں مصروف رہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو حکومت سازی کی دعوت دینے میں 10 دن لگائے۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے علامتی رنگوں سفید اور سبز شلوار قمیض میں ملبوس وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ وہ اس وقت سب سے کم عمر اور مسلم دنیا کی پہلی منتخب سربراہ حکومت تھی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے سابق رکن اور بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر اقبال اخوند اپنی کتاب ’بے نظیر حکومت، پہلا دور کیا کھویا کیا پایا؟‘ میں بے نظیر بھٹو کی حلف برداری کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ واقعے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ حکومت سنبھالتے وقت بھی اپنے مخالفین کی طرف سے کسی بھی وار کو خارج امکان نہیں سمجھتی تھیں۔
اقبال اخوند لکھتے ہیں کہ حلف برداری کے بعد کافی پیتے ہوئے غلام اسحاق خان نے انہیں کہا کہ ’میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا، ایک سوویت طیارہ ہائی جیک ہو گیا ہے۔ ہائی جیکر پاکستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ طیارہ کچھ دیر میں پاکستان میں اتر جائے گا۔‘
بے نظیر کو سب سے پہلے اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ یہ کام اس تاریخی واقعے سے توجہ ہٹانے کے لیے نہ ہو۔ وہ تقریب سے تیزی سے نکلیں اور اپنے سیکریٹریٹ پہنچ کر یہ احکامات جاری کیے کہ ملک بھر کے تمام ہوائی اڈے بند کر دیے جائیں، کنٹرول ٹاورز کام نہ کریں اور رن ویز کی بتیاں بند کر دی جائیں۔
اس وقت تو ہائی جیکر پاکستان نہ آئے مگر بے نظیر بھٹو کا 20 ماہ کا حکومتی سفر ایسی ہی رکاوٹوں میں طے ہوا۔ بقول اقبال اخوند بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے سے پاکستان پر مسلط کئی برسوں کی مطلق العنانی کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا جس کے لیے نظام حکومت کو جمہوری بنانا اور سماجی اور اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جاتا۔ مگر بے نظیر بھٹو سیاسی جھنجھٹ اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت بچانے میں مصروف رہیں۔

شیئر: