Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بَلّے کا نشان چِھن جانے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟

بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ’بلّے‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ فیصلے کے نتیجے میں بیرسٹر گوہر خان پارٹی کے چیئرمین بھی نہیں رہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جمعہ کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے۔ مقررہ مدت کے اندر الیکشن نہ کروانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن ختم ہوگئی ہے اس لیے پارٹی سے بلے کا نشان واپس لیا جاتا ہے۔‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 22 دسمبر تک پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنانے کی ہدایت کی تھی۔
اس فیصلے کے بعد جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے وہ یہی ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا اور آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پارٹی کے پاس کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسے لندن پلان کا حصہ قرار دیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ ’لاڈلہ سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف اور بلے کی موجودگی میں وہ انتخاب نہیں جیت سکتا۔ بیٹ ابھی مرا نہیں بلکہ بیٹ زندہ ہے اور ہم آٹھ فروری کا الیکشن جیتیں گے۔‘ 

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اپنے ردعمل میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہمیں اس سازش کا علم تھا۔ ہم ہائی کورٹ سے رجوع تو کریں گے اور ٹکٹ جمع کروانے کی تاریخ سے پہلے اپنا نشان واپس لے لیں گے لیکن ہائی کورٹ کو خود بھی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے۔‘
سیاسی اور آئینی ماہرین نے اس فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا سیٹ بیک قرار دیا ہے۔ 
ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’یقیناً یہ تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ہے اور وہ اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔‘
’تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس وقت پارٹی کا کوئی سربراہ بھی موجود نہیں۔ تحریک انصاف چاہے تو وہ اس فیصلے کو آئین کے تحت ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر مقررہ وقت میں تحریک انصاف کو ریلیف نہیں ملتا تو ایسی صورت میں اُنہیں آزاد امیدوار کھڑے کرنا پڑیں گے اور ضروری نہیں ہے کہ ہر حلقے میں انہیں ایک جیسا انتخابی نشان ملے، لہٰذا تحریک انصاف کا ووٹر تذبذب کا شکار ہو سکتا ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اب پی ٹی آئی کے پاس اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے اس فیصلے کو تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کے پاس اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
’اگر اعلٰی عدلیہ سے بھی انہیں ریلیف نہیں ملتا تب بھی تحریک انصاف کے پاس ایک اور آپشن موجود ہے کہ وہ بلے کے علاوہ کسی اور انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ تحریک انصاف کسی غیر معروف سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے اور ان کا انتخابی نشان اپناتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے۔‘
’اس سے اگرچہ ان کے پاس بلے کا انتخابی نشان نہیں ہوگا، تاہم پورے ملک میں وہ اپنے ووٹرز کو ایک ہی انتخابی نشان پر مہر لگانے کا کہہ سکتے ہیں۔‘ 
تاہم احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ’13 جنوری تک انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں اس لیے تحریک انصاف کے پاس ابھی کافی وقت ہے کہ وہ اعلٰی عدلیہ سے جا کر ریلیف حاصل کرے اور قوی امکان ہے کہ انہیں وہاں سے ریلیف مل بھی جائے۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کا ڈھانچہ ابھی موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان کی صرف الیکشن کمیشن سے ان لسٹ ختم ہوئی ہے جس وجہ سے انہیں انتخابی نشان نہیں ملے گا۔‘

شیئر: