Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انکوائری کمیشن کے سربراہ تصدق حسین جیلانی کون ہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے خط لکھا تھا (فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق خط پر تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن کی منظوری دے دی ہے۔
ترقی پسند سوچ رکھنے والے جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کا تعلق پنجاب کے شہر ملتان سے ہے۔
75 سالہ جسٹس ریٹائرڈ جیلانی نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد 1974 سے باقاعدہ پریکٹس کا آغاز ملتان کی ضلعی عدالت سے کیا۔ بعد ازاں وہ لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری جنرل اور پنجاب بار کونسل کے ممبر بھی بنے۔
بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت 1993 میں ان کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تعینات کیا گیا۔ اور ایک سال بعد ہی انہیں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔ 2004 میں اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا۔
تصدق حسین جیلانی سپریم کورٹ کے ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے فوجی آمر پرویز مشرف کی 2007 میں لگائی گئی ایمرجنسی میں نیا حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح وہ معزول ججوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ جن کو 2009 میں وکلا تحریک کے نتیجے میں دوبارہ جج کے عہدے پر بحال کیا گیا۔
انہیں 2013 میں عارضی طور پر چیف الیکشن کمشنر بھی بنایا گیا۔ اُسی سال اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا۔ وہ ملک کے اکیسویں چیف جسٹس تھے جو سات مہینے تک اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے تک اس عہدے پر رہے۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے بے شمار فیصلے کیے۔ چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے پہلا سوموٹو اختیار پشاور میں ہونے والے چرچ واقعے سے متعلق لیا تھا جس میں انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ جاری کیا۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں نگراں وزیراعظم کے لیے تحریک انصاف نے ان کا نام پیش کیا تھا۔ پیپلزپارٹی دور میں جج بننے والے تصدق حسین جیلانی کو مسلم لیگ ن کے ادوار میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جبکہ تحریک انصاف کے بھروسے کا یہ عالم تھا کہ نگراں وزیر اعظم تک بنانے پر تیار تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہی وجوہات ہیں کہ ان کا شمار پاکستان کے غیر متنازع ججوں میں ہوتا ہے۔ تاہم اب اس کمیشن کے لیے ان کی نامزدگی پر تحریک انصاف نے اعتراض کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے ان کی شخصیت کے بجائے جن قوانین کے تحت کمیشن بنایا گیا ہے ان پر اعتراض کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔

شیئر: