نازیہ حسن: پاپ موسیقی کی ملکہ جن کا کریئر ’مختصر مگر جادوئی تھا‘
نازیہ حسن: پاپ موسیقی کی ملکہ جن کا کریئر ’مختصر مگر جادوئی تھا‘
منگل 13 اگست 2024 5:31
علی عباس۔ لاہور
ضیا الحق کے دور حکومت میں نازیہ حسن اور زوہیب حسن کے گیت پی ٹی وہ پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی (فوٹو: زوہیب حسن فیس بک)
یہ اس عہد کی کہانی ہے جب معروف مصور اقبال حسین کو اُن کے فن پاروں کی نمائش کرنے سے روک دیا تھا۔ اقبال بانو نے تمام تر پابندیوں کے باوجود عظیم شاعر فیض احمد فیضؔ کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گایا تو اہل لاہور امڈ آئے تھے اور نثار عثمانی نے اظہار رائے کی آزادی کے لیے ’ڈکٹیٹر‘ کو ’ڈکٹیر‘ کہنے کی جرأت رندانہ کا اظہار کیا تھا۔
اور اسی عہد میں ’مولا جٹ‘ ریلیز ہوئی تھی جس کے فلم ساز سرور بھٹی نے کھلے بندوں یہ کہا کہ ’مولا جٹ بھٹو اور نوری نت ضیا الحق تھے۔‘
عہد ساز کمپیئر اور فنکار دلدار پرویز بھٹی نے اپنے پروگرام ’ٹاکرا‘ میں جب یہ کہا کہ ’ملک میں مارشل لا اور مولا جٹ اکھٹے چل رہے ہیں‘ تو ناصرف ان کے شو بلکہ فلم ’مولا جٹ‘ کی نمائش پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
یہ فلم سال 1979 میں نمائش کے لیے بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی جس کے صرف ایک سال بعد بالی ووڈ کی فلم ’قربانی‘ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر فیروز خان تھے۔ انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز اگرچہ اداکاری سے کیا مگر چند ہی برس بعد وہ ایک کامیاب پروڈیوسر کے طور پر ابھرے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فلم ’قربانی‘ کے لیے اپنا سب کچھ فروخت کر دیا تھا، یہ فلم اس زمانے میں ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے بنی تھی۔ فلم ناکام ہو جاتی تو فیروز خان سڑکوں پر آ سکتے تھے، اس فلم نے مگر بالی ووڈ میں کئی نئے رجحانات متعارف کروائے اور یہ اس سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ اس فلم کے گیت،’ہم تمہیں چاہتے ہیں ایسے
مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے‘
یا
’کیا دیکھتے ہو
صورت تمہاری
کیا چاہتے ہو
چاہت تمہاری‘
یا
’لیلیٰ میں لیلیٰ
ایسی ہوں لیلیٰ
ہر کوئی چاہے مجھ سے
ملنا اکیلا‘
بے پناہ مقبول ہوئے۔ ان تمام گیتوں کی موسیقی موسیقار بھائیوں کی مشہور جوڑی کلیان جی آنند جی نے دی تھی اور شاعر تھے اندیور۔ اس فلم کا ایک اور گیت بے پناہ مقبول ہوا جس کی موسیقی انڈین نژاد برطانوی موسیقار بِدو نے دی تھی۔ یہ وہ بدو ہی ہیں جنہیں ڈسکو، یورو ڈسکو اور انڈین پاپ کا بانی قرار دیا جاتا ہے اور ان کی موسیقی برطانوی کلبوں میں سنی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت سے متاثر ہو کر فیروز خان یہ چاہتے تھے کہ وہ اس فلم کے لیے موسیقی ترتیب دیں۔ اس وقت غالباً بِدو کے ذہن میں بھی یہ خیال نہیں تھا کہ وہ انڈین فلم انڈسٹری کو ایک نئی جہت دینے جا رہے ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ محمد رفیع، کشور، آشا بھوسلے جیسے مہان گلوکاروں نے اس فلم کے گیت گائے تھے جب کہ فلم میں سپرسٹار ونود کھنہ، فیروز خان اور زینت امان جیسے بڑے سٹارز شامل تھے۔
پشاور کے ایک پنجابی خاندان سے تعلق رکھنے والے ونود کھنہ ایسے واحد اداکار تھے جو 70 اور 80 کی دہائی میں باکس آفس پر راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کو ٹکر دینے میں کامیاب رہے تھے۔ اُن کا شمار اپنے عہد کے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں کیا جاتا تھا مگر یہ فلم آج بھی ایک گیت کی وجہ سے یاد کی جاتی ہے اور گیت 15 برس کی ایک لڑکی نے گایا تھا، جس کے بول اندیور نے ہی لکھے تھے مگر اس کی موسیقی بِدو نے ترتیب دی تھی جو بے پناہ مقبول ہوا، گیت کے بول کچھ یوں تھے،
’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے،
آہا، ہا، بات بن جائے‘
یہ پاپ موسیقی کی ملکہ نازیہ حسن کے جادوئی کیریئر کا آغاز تھا جو تین اپریل 1965 کو کراچی کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئیں۔ والد بزنس مین تھے تو والدہ سوشل ورکر جو موسیقی میں بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی میں پنہاں گلوکارہ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئیں جن کی حوصلہ افزائی کے باعث ہی انڈیا اور پاکستان کو ایک ایسی گلوکارہ ملی جس کا فن آج بھی زندہ ہے۔
نازیہ حسن نے ’قربانی‘ کے لیے گیت تو گا دیا مگر اُن کی زیادہ توجہ پڑھائی پر ہی رہی۔ ایک روز ان کے گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری جانب بالی ووڈ کے ’شومین‘ راج کپور تھے، انہوں نے فون پر کہا،
’فلم فیئر ایوارڈز کی کمیٹی نے رواں سال کا بہترین پلے بیک گلوکارہ کا ایوارڈ نازیہ حسن کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، کیا آپ لوگ یہ ایوارڈ وصول کرنے آ سکتے ہیں؟‘
نازیہ حسن یہ ایوارڈ وصول کرنے والی کم عمر ترین فنکارہ ہیں۔ یہ ریکارڈ شاید ہی کبھی ٹوٹ پائے۔ نازیہ حسن نے یہ ایوارڈ راج کپور کے ہاتھوں سے وصول کیا جو اس عہد کے دوسرے بہت سے فلم سازوں کی طرح نازیہ حسن کو اداکاری کی جانب لانا چاہتے تھے مگر ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی کیوں کہ نازیہ حسن کے سامنے ان کی زندگی کے اہداف واضح تھے اور وہ فی الوقت پڑھائی پر ہی اپنی ساری توجہ مرکوز رکھنا چاہتی تھیں۔
اداکارہ زینت امان نے رواں برس فلم ’قربانی‘ کی ریلیز کے 44 برس مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ ’میرے لندن کے ہوٹل کی لابی میں ایک ہی کنبے کے تین افراد میرے منتظر تھے۔ میری مگر اپنے مداحوں کے ساتھ بات کرنے کی رَتی بھر کوئی خواہش نہیں تھی۔ میں پورا دن شوٹنگ کرنے کے بعد لوٹی تھی اور آرام کرنا چاہتی تھی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’آنے والی خاتون کا نام منیزہ تھا۔ اور ان کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک خاموش سی لڑکی نازیہ اور لڑکے کا نام زوہیب تھا۔ یہ ایک نفیس پاکستانی نژاد خاندان تھا۔ میں نے انہیں اپنے سویٹ میں مدعو کیا۔ اس رات مجھے معلوم ہوا کہ نازیہ اور زوہیب موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
اداکارہ کے مطابق وہ منیزہ کے ساتھ رابطے میں رہیں اور انہوں نے بعد میں نازیہ کو فیروز خان سے ملوایا جو اُن کی آواز کے سحر میں کھو گئے۔
اور اگلے ہی سال نازیہ حسن کی وہ البم ریلیز ہوئی جو پاکستان یا انڈیا میں ہی نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز، لاطینی امریکہ اور روس میں بھی موسیقی کے چارٹس پر نمایاں رہی۔ ’ڈسکو دیوانے‘ کے نام سے ریلیز ہونے والی اس البم میں نازیہ کے ساتھ اُن کے بھائی زوہیب حسن نے بھی گیت گائے تھے جب کہ البم کے زیادہ تر گیتوں کی موسیقی بِدو نے ترتیب دی تھی۔ البم کا دوگانا،
’ڈسکو دیوانے
آہا، آہا
نشیلی ہے رات
ہاتھوں میں ہاتھ
ناچیں ستاروں کے ساتھ‘
بلاک بسٹر ثابت ہوا۔ البم کی ریلیز کے پہلے ہی دن صرف ممبئی میں اس کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں جو ایک ریکارڈ ہے، اس کامیابی کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر شائقین نازیہ اور زوہیب کے گیت چلانے کی فرمائش کرنے لگے۔ اس وقت تک چوں کہ الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر سرکاری کنٹرول میں تھا اور نیوز کاسٹرز کا ڈوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار دیا جا چکا تھا، اور تو اور اس دور کے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں بھی اس پابندی کے اثرات نظر آنے لگے تھے جس کے باعث پی ٹی وی اور پاکستان ریڈیو پر نازیہ اور زوہیب کا ’بلیک آؤٹ‘ ہو گیا۔
معروف صحافی ندیم ایف پراچا انگریزی زبان کے مؤقر اخبار روزنامہ ڈان کے لیے اپنے مضمون ’ڈسکو اور ڈکٹیٹر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ البم پاکستان میں غیرمعمولی طور پر کامیاب ہوئی۔ نوجوان پاکستانی ریڈیو یا پی ٹی وی پر فون کر کے گانے چلانے کی فرمائش کیا کرتے۔ لیکن جب ضیا کی مجلسِ شوریٰ کے ایک رُکن نے البم کا ٹائیل سانگ پی ٹی وی پر دیکھا تو انہوں نے اس بارے میں صدرِ مملکت سے شکایت کرتے ہوئے اسے ریاست کی پالیسیوں کے خلاف قرار دے ڈالا جس پر فوری طور پر ان دونوں کے گیت نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔‘
کچھ ہی عرصہ بعد اِن ٹین ایجر بہن بھائیوں کی صدرِ مملکت سے ملاقات ہوئی اور یوں اُن کے گیت نشر کیے جانے پر عائد پابندی ہٹا لی گئی۔
یہ سال 1982کا ذکر ہے۔ ’ڈسکو دیوانے‘ کا سحر برقرار تھا جب نازیہ اور زوہیب کی دوسری البم ’سٹار بوم بوم‘ ریلیز ہوئی۔ اسی نام سے بنی فلم ’سٹار‘ میں اس البم کے گیت شامل کیے گئے، فلم تو فلاپ رہی مگر البم زبردست کامیاب رہی۔ موسیقار بِدو ایک بار پھر اپنی موسیقی کا جادو جگانے میں کامیاب رہے تھے اور شاعر تھے اندیور۔ یہ فلم مشرقی اور مغربی موسیقی کا ایک زبردست امتزاج تھی۔
نازیہ حسن کو گیت ’بوم بوم‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ وہ یہ ایوارڈ تو حاصل نہ کرسکیں مگر ان کی البم نے فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
نازیہ حسن کی کامیابی کا یہ سفر رُکا نہیں۔ اُن کی اگلی البم ’ینگ ترنگ‘ سال 1983 میں پاکستان اور سال 1984 میں دنیا بھر میں ریلیز ہوئی۔ اس کی ریکارڈ چار کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ یہ جنوبی ایشیا کی ایسی پہلی البم تھی جس میں میوزک ویڈیوز شامل کی گئی تھیں۔ اور موسیقی ترتیب دی تھی بِدو اور زوہیب نے۔ ہانگ کانگ کے جریدے ’ایشیا ویک‘ کے مطابق اس البم کے تین ہفتوں میں ایک لاکھ کیسٹ فروخت ہوئے۔
البم کے گیت،
’آنکھیں ملانے والے
دل کو چرانے والے
مجھ کو بھلانا نہیں
من کو سجانے والے
جیون میں آنے والے
جیون سے جانا نہیں‘،
’سب سے مہنگی ہے
چلتی رہتی ہے
‘رُکتی نہیں دوستی‘
اور
’دم دم ‘
نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر نازیہ، زوہیب کے گیت تواتر سے نشر ہونے لگے تھے۔ اسی زمانے میں نازیہ حسن نے ایک بار پھر بالی ووڈ کی فلموں کے لیے گیت گانا شروع کیے۔ انہوں نے بالی ووڈ فلموں ’دل والے‘، ’الزام‘، ’میں بلوان‘، ’شیلا‘، اور ’سایہ‘ کے لیے گیت گائے، اور ان تمام گیتوں کے لیے موسیقی بپی لہری نے دی تھی، مگر یہ خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔
سال 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم ’میں بلوان‘ میں نازیہ حسن نے پہلی بار کشور کمار کے ساتھ گیت گائے۔ اُن کا دوگانا،
’ہلا گلا کریں ہم
کیوں کسی سے ڈریں ہم‘
پسند تو کیا گیا مگر بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا جب کہ دوسرا گیت ’راک اینڈ رال‘ بری طرح ناکام رہا۔اس فلم میں دھرمیندر، متھن چکرورتی اور مناکشی ششادری نظر آئیں۔
نازیہ حسن نے جب یہ سنا کہ وہ اس فلم میں مہا گائیک کشور کمار کے ساتھ دوگانا گائیں گی تو وہ گبھرا گئیں۔ وہ خوف زدہ تھیں کہ شاید وہ کشور جی کے ساتھ گاتے ہوئے انصاف نہ کر سکیں۔ کشور جی بھی نازیہ حسن کے ساتھ گلوکاری کرنے کا موقع ملنے پر پرجوش تھے، اس لیے وہ وقت سے پہلے ہی سٹوڈیو پہنچ گئے۔ نازیہ حسن اپنے خوف پر قابو پانے میں کامیاب رہیں اور کشور کمار کی طرزِ گائیکی سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہیں۔
ان تمام گیتوں کی موسیقی بپی لہری نے دی تھی جو اگرچہ اس وقت ہندی پاپ موسیقی کے منظرنامے پر نمایاں ایک اہم فنکار تھے مگر وہ بِدو کی طرح اختراع ساز نہیں تھے اور اسی وجہ سے ان کے یہ گیت کامیاب نہ ہو سکے۔
سال 1987 میں نازیہ اور زوہیب کی البم ’ہاٹ لائن‘ ریلیز ہوئی جس نے ایک بار پھر غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ ’ڈسکو دیوانے‘ کے بعد نازیہ اور زوہیب کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی البم ہے جب کہ سال 1992 میں نازیہ اور زوہیب کی آخری البم ’کیمرہ کیمرہ‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے زیادہ تر گیتوں کے لیے زوہیب نے موسیقی دی تھی جب کہ کچھ گیتوں کے لیے بپی لہری سمیت کچھ دیگر موسیقاروں نے موسیقی دی۔ یہ البم بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
یہ نازیہ کے مختصر مگر جادوئی کیریئر کا اختتام تھا۔ انہوں نے البم کی ریلیز کے بعد ذاتی زندگی پر توجہ دینے کے لیے گائیکی چھوڑ دی۔ انہوں نے اس مصروف زندگی کے باوجود تعلیمی سلسلہ منقطع نہیں کیا اور لندن کی رچمنڈ امریکن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن اور اکنامکس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں اور بعدازاں قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔
یہ سال 1989 کا ذکر ہے۔ پاکستان آمریت سے جمہوریت کا سفر طے کر چکا ہے۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو چکی تھیں۔
اسی عہد میں شعیب منصور کا پروڈیوس کردہ پاپ موسیقی کا پہلا شو ’میوزک 89‘ نشر ہوا۔ یہ شو مگر تنازعات کا شکار ہو گیا۔ معترضین نے کہا کہ نازیہ اور زوہیب اسلامی شعائر اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کو خاطر میں نہیں لائے۔ کچھ لوگوں کا اعتراض بہن بھائی کے ایک ساتھ عشقیہ اور رومانی گیت گانے پر تھا۔ اس پروگرام پر تنقید کی بازگشت اعلیٰ ترین حکومتی ایوانوں میں سنی گئی۔ پیپلز پارٹی پر بھی تنقید ہوئی جس کے بعد نازیہ اور زوہیب ایک بار پھر منظرنامے سے غائب ہو گئے۔
نازیہ حسن نے سال 1995 میں کراچی کے ایک صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے شادی کر لی۔ یہ شادی مگر کامیاب نہیں ہو سکی اور انہوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل طلاق لے لی۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شوہر کے ناروا سلوک کی وجہ سے ہی ان کی بہن نے مرنے سے قبل انتہائی بیماری کے عالم میں بھی شوہر سے طلاق لینے کو اہمیت دی جس پر نازیہ حسن کے سابق شوہر کی جانب سے زوہیب حسن پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔
خیال رہے کہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ جنگ میں دیے گئے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے اپنی شادی میں پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ان کے سابق شوہر کس طرح ان پر یہ بیان دینے کے لیے زور دیتے رہے ہیں کہ وہ دونوں خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ان کے شوہر نے ان کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ان کے والدین نے ان کا خیال رکھا۔‘
اُردو ادب میں پروین شاکر نے مختصر مدت میں غیرمعمولی شہرت حاصل کی، اُن کی ازدواجی زندگی مگر مشکلات کا شکار رہی اور وہ بھی یوں ہی اپنی شہرت کے عروج پر کم عمری میں چل بسیں۔ انہوں نے تو اپنے شوہر کے ہرجائی پن کو ان لفظوں میں اس شعر میں کچھ یوں بیان کیا ہے،
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
نازیہ حسن آج سے پورے 24 برس قبل کچھ اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد چل بسیں۔ اُن کی عمر اس وقت محض 35 برس تھی۔ اُن کا ایک بیٹا عریض حسین ہے۔
برطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے نازیہ حسن کی وفات پر اپنے ’تعزیت نامے‘ میں لکھا تھا کہ ’ایک 15 برس کی سکول کی طالبہ کا فلم ’قربانی‘ کے لیے گایا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘ بالی ووڈ کی فلمی موسیقی کے کامیاب ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔ برصغیر اور انگلینڈ میں نوجوان جنوبی ایشیائی اس گیت کی دھن پر جھومنے لگتے تھے۔‘
اخبار نے مزید لکھا تھا کہ ’لندن کی ایک یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والی نازیہ نے زندگی کا زیادہ عرصہ برطانیہ میں گزارا۔ انہوں نے مگر پاکستان سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انہوں نے اپنا بہت زیادہ پیسہ فلاحی سرگرمیوں پر خرچ کیا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی اور اپنی شہرت کے عروج پر بچوں کے لیے ٹیلی ویژن شوز میں خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے نوجوانوں کو منشیات کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارا۔‘
نازیہ حسن کو کسی نے جنوبی ایشیائی پاپ موسیقی کی ملکہ تو کسی نے پاکستان کی سویٹ ہارٹ قرار دیا۔ اُن کا موازنہ اکثر و بیشتر شہزادی ڈیانا سے کیا جاتا رہا۔ وہ ایک ایسی فنکارہ تھیں جنہوں نے اپنے فن سے کم عمری میں وہ مقام حاصل کیا جو بہت سے فنکار مدتوں کی ریاضت کے بعد بھی حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے جنوبی ایشیائی موسیقی کو ایک نیا آہنگ دیا اور ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گئیں۔