جب 2020 میں کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس جان لیوا اور نظامِ صحت کو ہلا دینے والے بحران سے کیسے نمٹیں۔
اس وقت پاکستان کے پاس مقامی سطح پر ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت تھی، نہ بیماریوں کی نگرانی کے جدید ذرائع، اور نہ ہی وہ انتظامی ہم آہنگی جو کسی عالمی وبا کے خلاف بروقت اور مؤثر اقدام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
چنانچہ پاکستان کو امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کی جانب دیکھنا پڑا جو ویکسین کی تیاری، فراہمی اور تحقیقی کام میں آگے بڑھ رہے تھے۔ عالمی اداروں کی امداد اور دوست ممالک کے تعاون کے بغیر پاکستان کے لیے اس بحران سے نمٹنا مشکل تھا۔
مزید پڑھیں
-
نشے کے عادی علاج کے باوجود نشہ کیوں شروع کر دیتے ہیں؟Node ID: 889825
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں یہ احساس پختہ ہوا کہ اگر ہمیں مستقبل میں کسی بھی ایسی وبا کا سامنا کرنا ہے تو ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے بیرونی امداد کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل پر بھی انحصار کرنا ہو گا۔ اسی تناظر میں وفاقی حکومت نے قومی ادارۂ صحت، اسلام آباد کو وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ایک مرکزی ادارے کے طور پر متحرک کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ کورونا نے ہمیں یہ سکھایا کہ صحت عامہ میں خود انحصاری محض ایک خواب نہیں بلکہ قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔
ان کے بقول، ’ہم نے کورونا سے یہ سیکھا کہ ہمیں اپنی ویکسین، اپنی تحقیق اور اپنا پیداواری نظام خود بنانا ہوگا تاکہ ہم کسی اور کے محتاج نہ رہیں۔‘
اس مقصد کے تحت قومی ادارۂ صحت میں عوامی صحت کی ہنگامی صورتِ حال کے لیے ایک نیا مرکز قائم کیا گیا ہے جو عالمی معیار کے مطابق بیماریوں کی نگرانی، بروقت اقدامات اور بین الاقوامی اداروں سے رابطے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مرکز کی نگرانی میں وفاقی حکومت نے پانچ سالہ قومی منصوبہ برائے صحت عامہ تحفظ (2024 تا 2028) مرتب کیا ہے، جس میں انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی صحت کو یکجا کرتے ہوئے مستقبل میں ابھرنے والے خطرات کے خلاف تیاری کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔

اس منصوبے میں ویکسین کی ترسیل، محفوظ ذخیرہ، اور دور دراز علاقوں تک سپلائی کے تمام پہلو شامل کیے گئے ہیں۔
کورونا کے دوران پاکستان نے ایک اہم سنگ میل اُس وقت عبور کیا جب چین کے اشتراک سے ’پاک ویک‘ نامی ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری ممکن ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے اپنے ہی ادارے میں کورونا ویکسین سازی کا عمل مکمل کیا۔ اس کا سب سے نمایاں اثر دارالحکومت اسلام آباد میں ویکسین لگوانے کی شرح پر پڑا جو 93 فیصد سے تجاوز کر گئی جو کہ نہ صرف ملک کی بلند ترین شرح تھی بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک سے بھی بہتر تھی۔
اسی دوران نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اور وفاقی ادارہ برائے حفاظتی ٹیکہ جات کی مدد سے ملک بھر میں کورونا ویکسین کے محفوظ ذخیرے قائم کیے گئے تاکہ اگر وائرس کی کوئی نئی قسم سامنے آئے تو فوری اقدامات کیے جا سکیں اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فوری ردِعمل ممکن ہو۔
ماضی میں جہاں پاکستان کو تمام تر ویکسین بیرونِ ملک سے درآمد کرنا پڑتی تھیں، اب وہ جدید ترین ایم آر این اے (mRNA) ویکسین بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
قومی ادارۂ صحت نے عالمی ادارۂ صحت اور بین الاقوامی دوا سازوں کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت اسلام آباد میں ایک جدید ترین تجربہ گاہ قائم کی جا رہی ہے جو نئی وباؤں کے خلاف ویکسین کی تحقیق، تیاری اور ترسیل کی مکمل صلاحیت رکھے گی۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ وبائی امراض کے پیش نظر، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کلیدی قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر سٹریٹجک منصوبہ بندی اور ویکسین کی تیاری کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا مقصد تحقیق و ترقی، مقامی پیداوار اور ویکسین کی ترسیل کے لیے ایک مضبوط نظام قائم کرنا ہے۔ این آئی ایچ عالمی ادارہ صحت سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر تکنیکی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور ویکسین سے متعلقہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے کام کر رہا ہے۔

این آئی ایچ اس وقت جنوبی کوریا کے انٹرنیشنل ویکسین انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری کی صلاحیت بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ پاکستان نے میڈیسن پیٹنٹ پول (ایم پی پی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ ایک عالمی ٹیکنالوجی ٹرانسفر پروگرام میں شمولیت اختیار کی ہے، جو خاص طور پر کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ان ممالک کو بیرونی سپلائرز پر انحصار کم کرنے اور موجودہ ویکسینز کے ساتھ ساتھ جدید ایم آر این اے پر مبنی ٹیکنالوجیز کی تیاری میں خودکفالت حاصل کرنے کے قابل بنانا ہے۔
این آئی ایچ نے اس پروگرام میں شمولیت کے لیے باقاعدہ اظہارِ دلچسپی جمع کرایا اور کامیابی سے اس عالمی اقدام میں شراکت دار بننے کے لیے اہل قرار پایا۔
اس اقدام کے تحت این آئی ایچ میں ایک جدید ایم آر این اے لیبارٹری قائم کی جا رہی ہے جو تحقیق، ترقی اور مقامی سطح پر ویکسین کی تیاری کو سہارا دے گی۔ یہ لیبارٹری ابھرتے ہوئے جراثیم کے خلاف فوری ردعمل کی صلاحیت رکھے گی، جس سے مستقبل میں کسی بھی ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت میں قومی سطح پر ردعمل کے وقت میں بہتری آئے گی۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ یہ کوشش پاکستان کے وسیع تر مقاصد سے ہم آہنگ ہے، جن میں صحت کا تحفظ، ویکسین کی فراہمی میں خود انحصاری، اور وبائی امراض کے لیے تیاری شامل ہے۔ یہ اقدام سائینس پر مبنی اور مستقبل بین حکمت عملی کا مظہر ہے، جو پاکستانکو عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے والا ملک بناتا ہے۔

خیال رہے کہ قومی ادارۂ صحت پہلے ہی الرجی، ریبیز (کتے کے کاٹے کی بیماری)، سانپ کے زہر، ٹائیفائیڈ اور ہیضے جیسی بیماریوں کی ویکسینز ملک میں تیار کر رہا ہے جو تمام صوبوں اور وفاقی ہسپتالوں کو باقاعدگی سے فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس ادارے نے اپنی پیداواری استعداد میں بھی نمایاں بہتری کی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔
این آئی ایچ متعدد بیماریوں کی ویکسینز اب سرکاری ہسپتالوں، ڈسپنسریوں اور مسلح افواج کے طبی مراکز کو فراہم کر رہا ہے۔ ان ویکسینز کی قیمتیں بھی عوامی اداروں میں کھلی منڈی کے مقابلے میں کافی کم ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
مثلاً سیل کلچر ریبیز ویکسین فی شیشی 1283 روپے 52 پیسے، اینٹی ریبیز سیرم اور سانپ کے زہر کے خلاف سیرم دونوں فی شیشی 2139 روپے 96 پیسے، ٹائیفائیڈ ویکسین فی شیشی 713 روپے 32 پیسے جبکہ ٹائیفائیڈ اور ہیضہ کی ویکسین کی قیمت فی شیشی 1426 روپے 64 پیسے مقرر کی گئی ہے۔ ان ویکسینز کی فراہمی تمام صوبوں کے محکمہ صحت کو یقینی بنائی گئی ہے تاکہ سرکاری طبی ادارے اپنی ضروریات آسانی سے پوری کر سکیں۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقدامات اس نئی سوچ کا مظہر ہیں جس کے تحت پاکستان نہ صرف اپنی عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر صحت عامہ کی حکمت عملیوں میں فعال کردار ادا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔