Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے وفائی کی داستان، جب ’بے نسل‘ کتے نے اپنے مالک کی لاش کو ڈھونڈ نکالا

پولیس کے مطابق لاش کو مسخ کر کے ناقابل شناخت بنا دیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: پنجاب پولیس
وہ نیا نیا یہاں آیا تھا اور اس علاقے سے مانوس نہیں تھا۔ یہ اس کا پہلا ہفتہ تھا اور وہ اپنے چار بچوں کے مستقبل کی فکر اور فکرِمعاش میں غلطاں سڑک کنارے چل رہا تھا کہ اسے ایک چھوٹا سا کتے کا پِلا زخمی حالت میں ملا۔
 وہ اس کے پاس بیٹھا تو اسے نظر آیا جیسے اس کی اگلی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔ اس نے سارے کام چھوڑے اور اس پِلے کو اپنی رہائش گاہ پر لے آیا۔ اور اس کی دونوں ٹانگیں لکڑی کی پٹی سے باندھ دیں۔
عمر حیات نے ایک مہینے تک اس پِلے کی خدمت کی تو اس کی دونوں ٹانگیں ٹھیک ہو گئیں، اس دوران اس کا نام ٹونی رکھ دیا۔ جب عمر حیات روزانہ اس کی خدمت کرتا تو ان کی بیگم شمیم بی بی اس بات کا مذاق اڑاتیں۔ اور دیگر لوگ بھی کہتے کہ یہ کون سا کسی بڑی نسل کا ہے۔ ’ایک بے نسل کتے کی اتنی خدمت کون کرتا ہے۔‘
یہ کہانی ملتان کے رہائشی عمرحیات کی ہے جو 2023 میں ساہیوال میں ایک زمیندار کی ملازمت اختیار کرتا ہے اور پھر اپنی بیوی اور اپنے چار بچوں کے ساتھ اسی زمیندار کے فارم ہاؤس پر منتقل ہو جاتا ہے۔
فارم ہاؤس کے مالک سید بلال نواز بتاتے ہیں کہ ’رواں سال فروری کے پہلے ہفتے میں ہی عمر حیات نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ میرے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتا تو میں نے اس کا سارا حساب کلئیر کر دیا۔ اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ چند ایک دن میں یہ جگہ چھوڑ دے گا تو میں نے بھی نئے ملازم کی تلاش شروع کر دی۔ اور پھر اس کے چند دن بعد یہ لوگ چلے گئے۔ جب میں فارم ہاؤس پر آیا تو ان کا کمرہ خالی تھا۔‘

کتے کی وفاداری

عمر حیات اور اس کے خاندان کو ساہیوال کے اس فارم ہاؤس سے گئے ہوئے چار پانچ دن ہو چکے تھے۔ لیکن ٹونی ابھی تک اسی فارم ہاؤس پر تھا۔ یہ بات کسی نے نوٹ نہ کی۔ سید بلال نواز کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے بھی نوٹ نہیں کی۔ ’لیکن اب میں غور کرتا ہوں تو مجھے کچھ کچھ یاد آتا ہے کہ ٹونی بہت زیادہ بے چین تھا۔ اور ہر وقت چکر لگاتا رہتا تھا۔ لیکن یقین مانیں ہم نے اس وقت یہ بات نوٹ نہیں کی۔‘
پھر یوں ہوا کہ ٹونی نے حویلی سے کچھ دور ایک جگہ پر جہاں گوبر کے ڈھیر کو آگ لگ کے بجھ چکی تھی۔ اس ڈھیر کو اپنے پنجوں سے کریدنا شروع کر دیا۔ وہ تقریبا ایک دن پورا اس نرم اور جلی ہوئی مگر نرم زمین کو کریدتا رہا یہاں تک کہ اس ڈھیر کے نیچے سے دو پاؤں باہر نکل آئے بظاہر یہ کسی لاش کے پاؤں تھے۔ اور پاؤں نکلے دیکھ کر ٹونی بھی وہیں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
گاؤں کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ دور سے کوئی بھی گزرتا تو ٹونی بھاگ کے جاتا اور پھر اس ڈھیر کے پاس واپس آتا۔ اور پنچوں سے کریدنا شروع کر دیتا حتٰی کہ ایک ندیم عباس شاہ نامی شخص نے وہ پاؤں دیکھ لیے اور فوری طور پر پولیس کو اطلاع دے دی۔ پورا گاؤں اکھٹا ہو گیا پولیس آ گئی۔ جب لاش نکالی گئی تو وہ ناقابل شناخت تھی۔
اس لاش کے چہرے کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا کہ تاکہ کسی بھی طریقے سے پہچانا نہ جا سکے۔ اور اس کے بعد خشک گوبر کا ڈھیر رکھ کر آگ بھی لگائی گی تھی جس سے بھی لاش ناقابل شناخت ہو چکی تھی۔
پولیس نے ابتدائی انکوائری کے بعد لاوارث لاش سمجھ کر دفنا دیا تاہم اس کے ڈی این اے کے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیبارٹری بھجوا دیے۔

پولیس نے لاش کو لاوارث قرار دے کر ہسپتال منتقل کیا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

بے وفائی کی داستان

یہ واقعہ تھانہ اُکاں والا کی حدود میں پیش آیا تھا جو تحصیل چیچہ وطنی میں آتا ہے۔ اس وقت اس تھانے کے ایس ایچ او شہزاد جوئیہ تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس کہانی کی مزید پرتیں کھولیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’لاش کا کوئی وارث سامنے نہیں آیا۔ ہم نے ساتھ والے دیہاتوں سے بھی چیک کر لیا۔ اس حویلی کے مالک سے بھی بات کی تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک ملازم تھا جو کچھ دن قبل اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنا حساب کتاب کر کے جا چکا ہے۔ چونکہ اس علاقے سے آخری جانے والے یہی لوگ تھے تو ہم نے اس خاندان کو ٹریس کرنا شروع کر دیا۔‘
عمر حیات خود تو ملتان کے تھے تاہم ان کی اہلیہ شمیم کا تعلق خانیوال سے تھا۔ شہزاد جوئیہ کہتےہیں کہ ’ہم شمیم کے گاؤں گئے اور اس سے عمر حیات کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو کچھ دن ہو گئے گھر سے نکلا واپس نہیں آیا۔ ہم نے اس لاش کے پاؤں دکھائے تو بیوی نے کہا  کہ وہ پاؤں عمرحیات کے نہیں تھے۔ اس کے بعد ہم عمر کی والدہ کے پاس ملتان گئے تو انہوں نے بھی وہ پاؤں نہیں پہچانے۔ ہم ایک دفعہ پھر تفتیش کی بند گلی میں تھے۔‘
پولیس نے شمیم کے گاؤں میں لوگوں سے پوچھا تو انہیں پتا چلا کہ وہ اس گاؤں میں آئی ہی اپنے بچوں کے ساتھ تھی، خاوند ساتھ نہیں تھا۔ چند دن کے بعد عمر حیات کی والدہ نے خود پولیس کو فون کر کے بتایا کہ یہ پاؤں ان کے بیٹے کے ہیں۔
شہزاد جوئیہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے عمر حیات کی والدہ سے پوچھا کہ پہلے آپ نے انکار کیوں کیا تو انہوں نے بتایا کہ شمیم کہتی تھی اس کے پاؤں میں کلہاڑی کا نشان ہے۔ جو نظر نہیں آ رہا۔ لیکن اپنی موت سے چند دن پہلے اس نے اپنی والدہ کو کہا تھا کہ اسے آ کر مل جائے کیوںکہ اسے لگ رہا اس کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ تو ماں کو وہ بات یاد آ گئی پھر کلہاڑی والی بات نکال کر غور کیا تو وہ پہچان گئیں۔ وہ نہ بھی پہنچانتیں تو چند دن بعد ڈی این اے رپورٹ آ جانی تھی جس نے مہر ثبت کر دی کہ وہ عمر حیات کی ہی لاش تھی۔‘
پولیس نے شمیم بی بی اور ان کے بھائی فدا کو حراست میں لے لیا۔

پولیس نے لاش کا ڈی این اے سیمپل فرانزک کے لیے بھجوایا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

شہزاد جوئیہ کہتے ہیں کہ ’شمیم نے گرفتاری کے بعد اقبال جرم کر لیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ان دونوں میاں بیوی کا علیحدہ علیحدہ افیئر چل رہا تھا۔ ان کی پندرہ سال پہلے محبت کی شادی ہوئی تھی۔ محبت کب ختم ہوئی اس بات کا ان کو اندازہ اس وقت ہوا جب یہ ساہیوال کے اس علاقے میں آئے۔ اب تک کی جو ہماری تفتیش ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور ایک دوسرے سے شدید نفرت بھی کرنا شروع ہو گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شمیم نے اپنے بھائی فدا کو بلایا اور 13، 14 فروری کی درمیان رات عمر حیات کو قتل کیا اور پھر اس کی لاش مسخ کر کے آگ لگا دی تاکہ ثبوت مٹایا جا سکے۔ تاہم پولیس کو اس لیے زیادہ وقت لگا کہ ایک تو اس کیس کا مدعی کوئی نہیں تھا اور نہ لاش کی کوئی شناخت تھی۔ تاہم اب یہ کیس حل ہو چکا اور دونوں بہن بھائی جیل میں ہیں۔‘
گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ عمر حیات کے پالتو کتے ٹونی کو اس کے بعد  گاؤں میں کسی نے نہیں دیکھا۔ ایس ایچ او شہزاد جوئیہ نے بتایا کہ وہ کئی مرتبہ اس کتے کو دیکھنے گئے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔

شیئر: