اکثرویک اینڈ کرکٹ کی نذر ہوجاتا ہے ،ریاض میں مقیم پاکستانی انجینیئراور کرکٹ کے کھلاڑی کی گفتگو
* * * * انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی۔کراچی* * * * *
محترم قارئین !آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے شخص سے کرانے جارہے ہیں جو ہیں تو ٹیلی کام کے میدان سے وابستہ اور یقینا یہاں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے مگراس کے علاوہ کرکٹ کے میدان کو بھی زیر کرکے مملکت میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔سید وقار احمد اپنی کامیابی میں اپنی شریک حیات جویریہ حسین کو بھرپور کریڈٹ دیتے ہیں اور یقینا جب تک گاڑی کے دونوں پہئے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں، گاڑی منزل تک بھی نہیں پہنچ پاتی ۔آئیے آپ بھی براہ راست اس گفتگو میں شامل ہوجائیں:
٭اردونیوزـ:جی وقار صاحب ،آپ کی پیدائش تو کراچی کی ہے مگر1988ء میںآپ مملکت آگئے ۔الیکٹرانکس انجینیئر ز کیلئے خلیج میں کیا اسکوپ ہے؟
٭ وقار احمد : سب سے پہلے تو اردونیوز کا شکریہ کہ اس نے سعودی عرب میں تارکین کے انٹرویو زکا اتنا اچھا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے یقینا بہت فائدہ ہورہا ہے ۔آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ میری ڈگری تو الیکٹرانکس کی ہے مگر میری فیلڈ ٹیلی کام ہے اور سعودی عرب میں اس کا بڑا اسکوپ ہے۔یہ رقبے کے لحاط سے بڑا ملک ہے ۔یہاں چھوٹے گائوں بھی ہیں جبکہ ہائی ویزاورشہر بھی ہیں اس لئے یہاں تارکین کیلئے مواقع زیادہ ہیں۔اب آہستہ آہستہ سعودی شہری بھی ٹیکنیکل اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے ان شعبوں کی طرف آرہے ہیں جس کی وجہ سے تارکین وطن کیلئے چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔مقابلہ سخت ہوگیا ہے ،مزید بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانی ہوگی تب ہی یہاں ملازمت محفوظ رہ سکے گی ۔ ویسے اب پہلے والی صورتحال تو نہیں ۔پہلے بہت زیادہ مواقع تھے ۔اب میں یہ مشورہ دونگا کہ جو آرہے ہیں، وہ بہت سوچ سمجھ کر آئیں ۔جو ا پنے شعبوں کے ماہر ہیں وہ آئیں ورنہ بہت زیادہ مقابلہ ہے۔اب ہر ادارے میں سعودی شہری آگے آ رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کے لئے مواقع کم ہو رہے ہیں اس لئے اگر اپنے ملک میں بہتر اور اچھی آمدنی ہے تو وہیں رہیں۔
٭اردونیوز:ویسے اگر ایک خاندان یہاں منتقل ہونا چاہے تو کم ازکم کتنی تنخواہ کی پیشکش ہو تو اس کیلئے بہتر ہے کہ فیصلہ کرے؟
٭ وقار احمد : ویسے تو یہ رہنے کے انداز پر ہے تاہم اگر میاں بیوی اور2 بچے ہیں اورا گر ان کی کوئی دیگرذمہ داری نہیں، رقم پاکستان نہیں بھیجنی تو کم ازکم6سے7ہزار ریال ہونے چاہئیں کیونکہ تعلیم خاصی مہنگی ہوگئی ہے ۔کرائے بڑھ رہے ہیں۔اشیائے خورونو ش کی قیمتیں بھی مائل بہ اضافہ ہیں۔4ہزار ریال میں مشکل ہوگی۔پہلے 500ریال میں پورا رمضان کریم گزرجاتا تھا مگر اب ایک ہفتہ گزرنا بھی مشکل ہے۔حالات تبدیل ہوچکے ہیں ۔
٭اردونیوز: مملکت میں تو کافی فاصلوں پر بھی چھوٹے چھوٹے قصبے آباد ہیں، ان علاقوں میں سگنلز کے مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہوگا؟
٭ وقار احمد:یہ حقیقت ہے کہ یہاں ایسے لوگ ہیں جو بہت دوردراز قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ کام شہروں میں کرتے ہیں اور ان کیلئے اپنے گھروں سے رابطہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اس لئے ٹیلی کام آپریٹرز اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ جہاں کہیں تھوڑی آباد ی بھی ہو، وہاں ٹاور لگائے جائیں۔کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ وزار ت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ فلاں علاقے میں سہولت دی جائے تو پھر یہ کمپنیاں خیال رکھتی ہیں۔جو دور دراز علاقے ہوتے ہیں انکے چارجز بھی کم رکھے جاتے ہیں جبکہ حکومت ان کو زیادہ اہم قرار دیتی ہے۔
٭اردونیوز:ـپاکستان کب جاتے ہیں؟
٭ وقار احمد :پہلے سال میں ایک دو چکر کراچی کے لگ جاتے تھے کیونکہ بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ نہیں تھا۔ اب دیکھنا پڑتا ہے کہ بچوںکی تعلیم کا نقصان نہ ہو۔
٭اردونیوز: پاک ،سعودی ثقافت میں کس حد تک یکسانیت محسو س کرتے ہیں؟
٭وقار احمد : دونوں معاشروں میں کافی یکسانیت ہے۔مثال کے طور پر دونوں میں خاندانی نظام تقریباً یکساں ہے۔جیسے ہمارے ہاں خاندانوں کا ایک دوسر ے کے ہاں آنا جانا ہوتا ہے ایسا ہی یہاں بھی ہے۔وہاں فارم ہائوس ہوتے ہیں یہاں پکنک کیلئے ایسے مقامات کو استراحہ کہتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں مہمان نوازی کا رواج ہے ویسے ہی یہاں بھی ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام ہے ۔پہلے جب ہم جدہ میں رہتے تھے تو میں سعودی نوجوانوں کے ساتھ کھیلتا تھا، کافی کچھ ایک جیسا ہے۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے بھی پاکستانیوں کو سعودی عرب سے دلی لگاؤ اور انسیت ہے ۔پرانی تاریخ بھی دیکھی جائے تو پاکستان اور سعودی عرب میں مثالی برادرانہ تعلقا ت رہے ہیں۔یہاں پاکستانی ہونے کی وجہ سے ہمیں عزت دی جاتی ہے۔پاکستان کوئی بڑا قدم اٹھاتا ہے تو یہاں لوگ اسے سراہتے ہیں۔
٭اردونیوز: سنا ہے کہ آپ کرکٹ کے بھی بہترین کھلاڑی ہیں، اس حوالے سے کچھ بتائیں کیا کیا حاصل کیا ہے اس کھیل سے ؟
*وقار احمد :جی مجھے کرکٹ بہت پسند ہے مگرمیں فٹ بال بھی کھیلتا ہوں۔8سال سے ریاض میں کرکٹ کھیل رہا ہوں۔3سال تک گوجرانوالہ کرکٹ کلب کا کپتان رہاہوں جبکہ اس سے پہلے نائب کپتان کے طور پر خدمات انجام دیتا رہاہوں۔ہماری ٹیم سعودی کرکٹ سینٹر کی زیرنگرانی ریاض کرکٹ لیگ میں رجسٹرڈ ہے۔ہم نے کئی ٹی 20ٹورنامنٹس جیتے ہیں۔میں نے کرکٹ میں اپنے کریئر کا آغاز آل رائونڈر کے طور پرکیاتھا مگر مختلف اوقات میں اوپنر ،ون ڈائون بیٹس مین کے طور پر جاتا رہا جبکہ میں وکٹ کیپر اور اٹیکر بائولر بھی رہا ہوں۔یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ مملکت میں کرکٹ کھیلنا کافی مشکل ہے کیونکہ بعض اوقات45سیلسیئس درجۂ حرارت پر بھی کھیلنا ہوتا ہے۔
٭اردونیوز:تو یہ کرکٹ کا جنون گھر میں بیگم کے طیش کا باعث نہیں بنتا ؟
*وقار احمد:ویسے اس حوالے سے میری بیگم جویریہ حسین کو کریڈٹ جاتا ہے ۔کئی مرتبہ تو ویک اینڈ بھی کرکٹ کی نذر ہوجاتا ہے مگر میری اہلیہ میرا بھرپور ساتھ دیتی ہیں ورنہ میں اپنا شوق پورا نہیں کرسکتا تھا۔
*اردونیو ز :پاکستان میں گزرے ہوئے وقت میں سب سے زیادہ کون سے لمحات یاد آتے ہیں؟
*وقار احمد :ہفتے کی رات کرکٹ کھیلنا اور پٹھان کے ہوٹل پر چائے پینا،کیفے پیالہ پر ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا او ر گپیں مارنا۔مالشیوں سے مالش کرالیتے تھے تو تمام تھکن اتر جاتی تھی ۔ اب بھی ہم صرف3ہفتے کیلئے چھٹیوں پر پاکستان جاتے ہیں، تب بھی کبھی عزیزآباد کھانے پینے چلے گئے اور کبھی کہیں۔جاوید نہاری تو لازمی جاتے ہیں اورکبھی ناظم آباد چلے جاتے ہیں۔ 3ہفتے میں سے 2ہفتے تو پہلے ہی طے ہو چکا ہوتا ہے کہ کیا کھانا ہے۔برنس روڈ کے پائے بھی کھانے ہیں ۔ویسے میں نے پاکستان میں بہت وقت تو نہیں گزارا مگر جو لمحات بہت زیادہ یاد آتے ہیں وہ ہماری نوجوانی کا زمانہ ہے جس میںدوست احباب سے ملنا ملانا بے حد ہوتا تھا ۔ اب عید پر پاکستان جاتے ہیں تو رشتہ دار آجاتے ہیں اورگھرمیں ہی رہ جاتے ہیں۔عید الفطر اور عید الاضحی کی رونقیںبھی یاد آتی ہیں۔عید الاضحی پر مویشی منڈی جانابہت یاد آتا ہے۔جانور لانا ا ور پھرقربانی، پھر تکے کباب بنانا۔ پردیس میں یہ سب بالکل نہیں ہوتا۔نماز پڑھ کر آئے اور سو گئے۔وہاں صبح نمازپڑھ کر آتے تو 10سلسلے ہوتے تھے۔ ہم عیدی جمع کرتے اور دیتے تھے شیر خرمہ یاکوئی اور سویٹ ڈش کھاتے۔بس کیا بات ہے پاکستان کی ۔
٭اردونیوز:پاکستان کو کس قدر یاد کرتے ہیں ،اپنی زمین کی خوشبو کیا کہتی ہے؟
٭ وقار احمد:اپناملک تو اپناہے ،سرزمین اپنی ہے ۔وطن میں ہم آزادی کا سانس لیتے ہیں ۔اپنے ملک میں دوست احباب، خاندانی محفلیں ،دکھ سکھ میں اپنے لوگوں کا ساتھ،بچوں کیلئے خاص طور پر دادا دادی، ماموں، چچاکا پیار اور تربیت، سب بہت مس کرتے ہیں مگر کیاکریں اپنے ملک کے حالات ہی مخدوش رہتے ہیں۔ اللہ کریم سے یہ دعا ہے کہ ہمارے وطن کے حالات مثالی ہوجائیں اور یہ معاشی طور پر مضبوط ہوجائے تو پاکستان سے بہتر کیا ہے؟
٭اردنیوز:پاکستان میں جو سیاسی افراتفری مچتی ہے تارکین پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟
٭وقار احمد :جب آپ وطن سے دور رہتے ہیں تو چھوٹی سی بات بھی پریشان کردیتی ہے۔اب جب سنتے ہیں کہ حالات خراب ہیں تو زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں۔گھر والوں کو فون کرکے پوچھنا اور سوچنا،لیکن اب یہ معلوم ہونے لگا ہے کہ میڈیا بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ہم تھوڑا بہت سمجھ لیتے ہیں مگر دور ہونے کی وجہ سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ٹی وی کھولیں تو لگتا ہے کہ کل صبح تک نجانے کیا ہونے والا ہے۔کبھی کسی ٹی وی ٹاک شو پر اچھی بات نہیں سنی۔مزے کی بات ہے کہ بات تو کی جاتی ہے مگر اس کا نتیجہ کوئی نہیں ۔
٭اردونیوز: وقار صاحب! نئے لوگ جلدپریشان ہوجاتے ہیں، انہیں آپ کیا مشورہ دیں گے؟
٭ وقار حمد : یہ صحیح ہے کہ یہاں پر پروفیشنل فیلڈ میں آگے بڑھنا آسان نہیں۔یہاں مختلف لوگ ہیں۔بہت سی باتیں اگر آپ اپنے ملک میں ہوں تو برداشت نہیں کرینگے کبھی ایسا بھی ہوگا کہ ایسا فرد آپ کے اوپر ہوگا جو اس قابل نہیں تو جذباتی ہوکر ملازمت چھوڑدینا صحیح نہیں۔ جو نئے لوگ آتے ہیں وہ مختلف رویوں سے پریشان ہوجاتے ہیں اور فوراًہی واپس جانے کی سوچتے ہیں۔یہاں محنت کا صلہ بھی ملتا ہے۔میرے پاس آسٹریلیا کی امیگریشن ہے مگر میں وہا ں نہیں جاتا کیونکہ سعودی عرب میں رزق میں برکت ہے۔باہر کے ملک جانا دوبارہ سیٹل ہونا اتنا آسان نہیں۔یہاں کافی چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی حوالے سے بہت ہی بہترین ہے۔بلا شبہ کہیں کچھ فائدے ہیں تو کہیں نقصان بھی ہیں ۔ چلیں کچھ باتیں بھابھی سے بھی ہوجائیں، آپ بالکل ہی خاموش بیٹھی ہیں۔جی بھابھی پہلا سوال یہ کہ:
٭ آپ کو جب میکا یاد آتا ہے تو کیا کرتی ہیں؟
٭جویریہ حسین:کال کرلیتی ہوں۔ ویسے یہاں مصروفیت بہت ہے ۔بچوں اور اپنے گھر کے کام ہی اتنے ہوتے ہیں کہ میکا زیادہ یاد ہی نہیں آتا ۔ میں یہاں شادی کے بعد آئی تھی، مجھے 6سال ہوگئے یہاں رہتے ہوئے ۔شروع میں تو محسوس ہوتا تھا مگر پھر ذمہ داریاں بڑھتی چلی گئیں اور مصروفیت کی وجہ سے اب یاد کم ہی آتی ہے مگر فون کالز اور انٹرنیٹ نے کافی حد تک فاصلے کم کردیئے ہیں۔میری دو بیٹیاں او ر ایک بیٹا ہے۔ یہ بچے ہی میرے لئے سب سے بڑی مصروفیت ہیں ۔
٭اردونیوز:ـ مشترکہ خاندانی نظام سے دور رہنے کے باعث بچوں پر کیا اثرات پڑرہے ہیں؟
٭ جویریہ حسین:ہم لوگ پورے خاندان سے الگ رہ رہے ہیںجس کی وجہ سے بچوںمیں اعتماد پیدا نہیں ہوتا۔بچے تنہا رہنے کے عادی ہوگئے ہیں۔کہیں باہر جائیں تووہ نئے چہرے دیکھ کر رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ بچوں کو معاشرے اور محفلوں کا عادی بناناپڑتا ہے جس کیلئے ہم اپنے دوستوں کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔بچے ان کے بچوں کے ساتھ ملتے ہیں،کھیلتے ہیں تو کچھ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
٭اردونیوز: ابھی عید گزری اور پہلے بھی5عیدی گزر چکیں، کیسا محسوس کرتی ہیں، پاکستان کی عید یادتو آتی ہوگی؟ *جویریہ حسین: جی بالکل یاد آتی ہے ۔عید پر بہنیں اور کزنز ملتی تھیں ۔چاند رات کوہی سب جمع ہوتے تھے۔آدھی رات تک سب جاگتی رہتی تھیں۔ امی کچن میں رہتیں، ہم لوگ مہندی لگاتے ، ساری رات عید کی تیاری کرتے ۔یہاں بھی ہم خواتین جمع ہوجاتی ہیں مگر جو بات اپنے ملک کی ہے وہ کہیں اور تو نہیں ہوسکتی۔
٭اردونیوز:کہتے ہیں کہ یہاں عورت کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے تنہا ہوجاتی ہے ، ایسے میں خود کوکیسے مصروف رکھتی ہیں؟
*جویریہ حسین: ویسے تو تنہا ہونا مشکل ہے جیسے میں نے پہلے کہا کہ بچوں کی مصروفیت بہت ہوتی ہے مگر پھر بھی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ سہیلیاں بنائیں۔میرے شوہر کے دوستوں کی بیویاں میری سہیلیاں ہیں۔ریاض میں خواتین کے کچھ گروپس ہیں ان سے میری دوستیاں ہیں جن کی وجہ سے کافی سرگرمیاں مل جاتی ہیں ۔