Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں ہندوستانی فوج، آخر کیوں؟

اب صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ، پاکستان کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے، پاکستان کو بھی فوجی شراکت کا حصہ بننے سے روکا جارہاہے
* * * *صلاح الدین حیدر* * * * *
محو حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ ملک جغرافیائی یا تاریخی طور پر زمین کے حصّے کو کہتے ہیں۔ پاکستان بھی ایک زمین کے ٹکڑے کا ہی نام ہے۔ کبھی یہ ہندوستان کا حصّہ تھا لیکن اپنی پیدائش کے 25 سال کے اندر ہی دولخت ہوگیا۔جو کچھ باقی بچا ہے وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ یہاں کے رہائش پذیر لوگوں کا نہیں چند خاندان کی ملکیت ہے۔ حیران نہ ہوں۔میں اپنی بات پر مُصر ہوں اور آپ کو مطمئن کئے دیتا ہوں۔ ملک کیسا بھی ہو، امیر ہو یا غریب، کسی نظم و نسق کے ساتھ چلتا ہے تو اپنی اصلی حالت میں رہتا ہے بلکہ پھلتا پھولتا ہے، لوگ خوشحال نہ بھی ہوں تو بھی مطمئن ضرور ہوتے ہیں۔ جلن اور حسد تو ہر جگہ ہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہو نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسانی فطرت ایک جیسی ہی ہوتی ہے لیکن کچھ اصول، کسی قسم کا طرز و طریقہ تو اپنانا ہی پڑتا ہے، حیرت تو مجھے اُس وقت ہوئی، جب وزیراعظم سعودی عرب کے دورے کے بعد لندن تشریف لے گئے اور اُن کی غیر موجودگی میں چینی وزیر خارجہ اسلام آباد تشریف لائے۔ اسلام آباد کے ایئرمارشل نور خان ایئرپورٹ پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اُن کا استقبال کیا۔ نہ صرف یہی بلکہ وزیراعظم ہائوس میں اُنہوں نے معزز مہمان سے رسمی ملاقات بھی کی اور عشائیہ بھی دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کے اصولوں کے تحت میزبان ملک کا ہم منصب ہی مہمان کا استقبال کرتا ہے۔ اسلام آباد میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز موجود تھے تو پھر شہباز شریف کون سے اصول کے تحت چینی وزیر خارجہ کے استقبال کیلئے گئے اور پھر باقی تمام مصروفیات بھی وزیرخارجہ کی حیثیت میں ادا کیں۔ پارلیمنٹرینز، وزراء،گورنر صاحبان، وزیراعظم اور وزیر خارجہ سب ہی کسی حلف کے تحت عہدوں پر براجمان رہتے ہیں چونکہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ ریاست کے بین الاقوامی معاملات پر دسترس رکھتے ہیں اسلئے اُن کو ایسے راز معلوم ہوتے ہیں جو عام وزرا ء یا کسی بھی گورنر یا وزیراعلیٰ کو نہیں بتائے جاتے۔ بین الاقوامی معاملات زیر بحث آئے ہوں گے، چین آج ایک بڑی طاقت ہے۔اُس کا ڈنکا پوری دُنیا میں بج رہا ہے۔ امریکہ جیسی عظیم طاقت بھی اُس سے رشتے استوار رکھنے پر مجبور نظر آتی ہے اور پھر اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو چینی وزیر خارجہ کا دو روزہ دورہ بہت ہی خاص اہمیت کا حامل تھا۔
افغانستان اور پاکستان میں تنائو بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور ہند الگ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ نریندر مودی کے دورۂ امریکہ سے پہلے ہی صدر ٹرمپ نے 22 جدید ترین ڈرون ہندکے حوالے کرنے کا اعلان کردیا، مزید نظر دوڑائی جائے تو اور بھی بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور ہند نے2 جنگیں لڑیں، 1965ء اور 1971ء میں لیکن دونوں ہی دفعہ افغانستان (جو ہمارا سب سے قریبی پڑوسی تھا) ان تمام معاملات سے علیحدہ رہا جو ہمارے لئے باعث اطمینان تھا۔ کم از کم ایک سرحد تو محفوظ تھی۔ ہم نے صرف ہند سے نبردآزما ہونا تھا۔ اب صورت حال یکسر تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ ہند کا اثررسوخ افغانستان میں بہت بڑھ چکا بلکہ یہاں تک اعلان کیا گیا کہ بی جے پی کی حکومت افغانستان میں اپنے 400 فوجی رکھنے پر آمادہ ہوگئی ہے تاکہ افغانستان کی عسکری اہلیت میں اضافہ کیا جاسکے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ہماری فوری توجہ مانگتی ہے۔ امریکہ، ہند سے مل کر سی پیک اور گوادر سے لے کر چین تک کے راستے کو ترقی دینے پر جزبز نظر آتا ہے۔ قطر اور ایران بھی اس سے خوش نہیں دکھائی دیتے۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار اور قطر کی بندرگاہوں پر خاطر خواہ اثر پڑنا لازمی ہے۔ ظاہر ہے اُنہیں فکر تو ہوگی کہ اُن کے وسائل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہند خود تو کچھ کر نہیں سکتا تھا، اُس نے امریکہ سے مل کر سازشی تانے بانے بُننے شروع کر دیئے اور اب یہ صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کو دبا کر رکھے۔ اُس نے کئی اقدامات ایسے کئے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے۔ مثلاً امریکن سینیٹ میں ایک بل پیش کردیا گیا ہے کہ پاکستان کو نیٹو سے باہر ہونے کی نسبت سے کسی بھی فوجی شراکت کا حصّہ بننے سے روک دیا جائے۔ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی بہت مدد کی ہے۔ 1979 ء سے لے کر آج تک ہم نے امریکہ کو راہداری دی۔ اُس کا فوجی ساز و سامان، پاکستانی بندرگاہوں اور ہماری سرزمین سے ہوتا ہوا افغانستان جاتا رہا ہے۔ کئی اقسام کی امداد ہمیں دی گئی لیکن اب جبکہ امریکہ کا مطلب پورا ہوگیا تو پاکستان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینکا جارہا ہے بلکہ اصولی طور پر تو پھینک ہی دیا گیا، امریکی امداد بند ہوجائے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، امداد اب ایک بے معنی شے ہوچکی ہے۔ پاکستان کو 1962ء سے امریکہ نے امداد کبھی روکی، کبھی جاری کی لیکن پاکستان ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ امریکہ امداد روکنا چاہتا ہے شوق سے روک لے، ہمیں کوئی تشویش نہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ کل خدانخواستہ پاک ، ہند میں کوئی نئی جنگ چھڑی تو افغانستان سے بھی ہماری سرحدوں کو خطرہ ہوگا۔ ہمیں ایک نہیں دو محاذوں پر اپنی حفاظت کرنی پڑے گی لیکن خیر پاکستانی افواج آج پہلے سے کہیں بہتر حالت میں اور جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود، جنگی صلاحیتوں سے لیس ہے۔ آج ہم ایک نیول اور ایئرپاور ہیں، جو ہری قوت علیحدہ ہے۔ کوئی بھی ملک اب ہم پر بُری نگاہ ڈالنے سے پہلے 10 بار سوچے گا۔ لیکن جو بات میں یہاں کہنا چاہتا ہوں وہ یہی ہے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ریاستی نظم و نسق کو مثبت انداز میں چلانا پڑے گا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ، وزیر خارجہ نہیں بن سکتے۔ اُنہوں نے جو کردار اپنے بڑے بھائی کی غیر حاضری میں اپنایا وہ صریحاً غلط تھا۔
غلط روایت اگر ایک دفعہ پڑ جائے تو مشکل سے ہی دُور ہوتی ہے۔ سرتاج عزیز کا کام شہباز شریف نے کیسے سنبھال لیا، کس نے اُنہیں اس کی اجازت دی تھی، وہ وزیراعظم ہائوس میں جاکر بیرونی مہمان کا استقبال کریں اور شریک گفتگو ہوں۔ یہ کام تو سرتاج عزیز کا تھا۔ پھر چینی وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان اگر اچانک بن گیا ہو تو اور بات ہے لیکن ایسے دورے عموماً 10،15 دن پہلے بنا کرتے ہیں۔ بہت سے انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔ اگر یہ دورہ بن چکا تھا تو پھر وزیراعظم ملک سے باہر کیوں گئے، ملک میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ کوئٹہ اور پھر پارا چنار میں لوگ شہید ہوئے لیکن وزیراعظم کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ کیا یہی کسی اچھے حکمراں کا طریقۂ کار ہوتا ہے۔ اب تو لوگ عام طور پر کہنے لگے ہیں کہ سپریم کورٹ کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے دینا چاہیے، وہ اس اعلیٰ منصب کے اہل نہیں ہیں۔ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے، پھر جو کچھ اُنہوں نے لندن پہنچ کر جے آئی ٹی کے بارے میں کہاکہ وہ سارے کا سارا عدالت عظمیٰ کے خلاف تھا، تو پھر سپریم کورٹ کو اُن کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ قائم کرنا چاہیے۔

شیئر: