Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”حکایت نقدِ جاں کی“، مجموعہ ضامین پر طائرانہ نظر

 
روو ف خلش کی نثر میں دل میں ا تر جانے والی کیفیت،فطری قوتِ استدلال موجود ہے 
محمد مجاہد سید۔جدہ
جدید دور میں رووف خلش حیدرآباد دکن کے مشہور ترین شعراءمیں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ آپ کے متعدد شعری مجموعوں نے اقلیم سخن میں رووف خلش کی اعلیٰ حیثیت تو متعین کی ہے ، موصوف کی نثر میں بھی دل میں ا تر جانے وا لی کیفیت کے ساتھ ساتھ فطری قوتِ استدلال موجود ہے جس نے آپ کے مجموعہ مضامین ”حکایت نقدِ جاں کی“ کودرجہ اعتبار بخشا ہے ۔ رووف خلش مدتِ دراز تک سعودی عرب میں مقیم رہ کر یہاں کے شعری و ادبی حلقوں کو رونق بخشتے رہے ہیں۔ رووف خلش کے تبصروں اور مضامین پر مبنی یہ مجموعہ اُن کی نثر نگاری اور زاویہ¿ تنقید کے ساتھ ساتھ رووف خلش کی علمی و ادبی حلقوں اور شخصیات سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔
اس کتاب کی حیثیت ہمہ پہلو ہے ۔224صفحات پر مشتمل اس مجموعہ¿ نثر میں 52مضامین موجود ہیں۔ رووف خلش کی نثر کے متعلق بے تکلفی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بے داغ اور علمیت سے بھر پور ہونے کے باوجود شگفتہ ہے ۔ جذبے اور خیال کے توازن کے ساتھ ساتھ یہ مضامین باریک بینی اور صفتِ عدل سے عبارت ہیں۔منجھے ہوئے صاحبِ اسلوب تخلیق کار کی طرح رووف خلش نے ان مضامین کو ہر حیثیت سے چمکا دیا ہے۔ حیدرآباد اور قیام جدہ کے دوران رووف خلش پر جو آفاق روشن ہوئے ہیں ، ان کی جھلک شخصیات کی یاد کے ساتھ احباب کے تذکروں اور شعراءو ادباءکے علمی درجے کے تعین میں ا ن کے خرم و احتیاط کا بھی یہ مضامین و تبصرے عمدہ نمونہ ہیں۔
رووف خلش کی یہ تحریریں مبالغہ آرائی اور بڑھی ہوئی عقیدت سے پاک ہیں لیکن کہیں بھی علمی بخل سے کا م نہیں لیا گیاہے۔ کتاب کی ابتداءمیں رووف خلش اپنا مقصدِ تحریر کچھ ان الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں:
”میں کیوں لکھتا ہوں کے تین جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ میں صرف اپنے لئے لکھتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ اوروں کے لئے لکھتا ہوں۔ تیسرے یہ کہ میرے اندر کی تحریک مجھ سے لکھواتی ہے جسے ”اندرونی احساس“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اگر میں اپنا تخلیقی تجربہ بیان کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین چیزیں میرے تخلیقی عمل کا حصہ بنی ہیں، وہ ہیں مشاہدہ، تجربہ اور احساس۔دراصل تخلیقی عمل ایک شعور اور لا شعور کے جھٹ پٹے کا عمل ہے ۔“
اسی شعور اور لا شعور کے جھٹ پٹے کے درمیان رووف خلش کے یہ مضامین اور تجربے معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ میں نے موصوف کے چند مضامین سے اقتباسات اخذ کر کے ہدیہ¿ قارئین کئے ہیںتاکہ رووف خلش کا علمی اور تنقیدی مسلک قارئین پر واضح ہوجائے، جیسا کہ اپنے ابتدائی مضمون ” میں کیوں لکھتا ہوں“ میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ”مقدار“ کے مقابلے میں ”معیار“ کو اہمیت دیتے ہیںاور انہوں نے حتی الامکان پامال الفاظ ، بندھے ٹکے اندازِ بیان یا روایتی اظہار سے گریز کیا ہے ۔ یہ بات صرف ان کے شعری تخلیقات کے کڑے انتخاب پر ہی نہیں صادق آتی بلکہ رووف خلش نے اپنے” مضامین و تبصرے “ بھی اسی مسلک کے پیشِ نظر تحریر کئے ہیں۔
اُن کے مضمون ”جدید شاعری کو ایک بوطیقا کی ضرورت“ میں وہ لکھتے ہیں:
”تشریح اور تفسیر کا باب بند نہیں ہوا ہے اور نہ کبھی بند ہوگا۔ ہمیں یہ ملحوظ رکھنا ہوگا کہ امتدادِ زمانہ کے باعث رشتوں اورمحسوسات کی شکست و ریخت ہوئی ہے ۔ کل جو ا مور عیب سمجھے جاتے تھے، وہ آج ہنر بن گئے ہیں، قدریں بدل گئی ہیں لہٰذا ہمیں پرانے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ سائنسی مادی اور الیکٹرانک ترقیوں کے باعث ”شعریات“ کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے تجرباتی طور پر ہی سہی، جدید شاعری کی ایک”بوطیقا“ لکھنی ہوگی۔“
مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کے متعلق وہ رقم طراز ہیں:
”وہ (راجندرسنگھ بیدی)عورت کی نفسیات کو بیان کرتا ہے اور یہ کہ ماں کا کردار اسے عورت کے ہر روپ میں نظر آتا ہے ۔ اب رہا گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتوں میں کھو جانا تو انہیں جزئیات کی مدد سے وہ بڑی حقیقتوں کا تانا بانا بنتا ہے ۔“
(”راجندر سنگھ بیدی، اردو کا قد آور اور منفرد افسانہ نگار“ سے ماخوذ)
مشہور شاعر مخدوم محی الدین کے متعلق وہ یوں اظہار رائے کرتے ہیں :
”شاعر کی شخصیت میں اس کا نظریہ حیات کس طرح سموتا ہے، اس کی نمایاں اور کامیاب مثال مخدوم کی شاعری ہے۔مخدوم کبھی زندگی کی کشمکش اور طویل سفر میں تنہا چلنے کے قائل نہیں رہے بلکہ اپنے ہمراہ ساری جمعیت، سارے قافلے کی الجھنوں کا بار اٹھاناانہوں نے پسند کیا۔ اجتماعیت کو انفرادیت پر ترجیح دینا انہوں نے پسند کیا۔“
(”مخدوم محی الدین : فن اور شخصیت کے آئینے میں “سے ماخوذ اقتباس)
معروف اسلام پسند اور مشہور شاعر حفیظ میرٹھی کے متعلق ان کی رائے اہمیت کی حامل ہے :
”بنیاد پرستی کو منفی معانی میں استعمال کرنے والوں کے لئے حفیظ صاحب کی شاعری ایک چیلنج بن کر ابھری اور ایک مثالی و صحیح اقدارِ حیات کے حامل شاعر کے بطور ان کا شعر رزم گاہِ حیات میں تن تنہا ڈٹا رہا۔ وہ بھلے ہی ملت کے مسائل ، اسلامی فکر اور مسلم کُش فسادات کے موضوعات کو اپنے شعر میں نمایاں مقام دیتے تھے تاہم نعرہ بازی کی جگہ بالراست اسلوب کے قائل تھے۔“
(”کچھ حفیظ میرٹھی کے بارے میں “ مضمون سے ماخوذ)
”جدید اُردو نظم کا اہم معتبر شاعرقاضی سلیم“ سے ماخوذ اقتباس میں اس مشہور شاعر کی نظم گوئی سے متعلق اُن کی رائے ملاحظہ ہو:
”تخلیق کی سطح پر قاضی سلیم نے اپنے عہد کے محسوسات کو غمِ کائنات کے طور پر نہیں بلکہ غمِ ذات بنا کر انگیز کیا ہے۔ قاضی سلیم کا لب و لہجہ ، خود کلامی سے گزرتا ، خود شناسی کی منزلیں طے کرتا، خطابت کے اس اسلوب تک جا پہنچتا ہے جو ولیوں یا مصلحین کے طرزِ تفہم کا خاصہ ہے۔“
پروفیسر غیاث متین کے انتقال پر ان کا درد بھرا مضمون جذباتیت کے باوجود غیاث متین کی شخصیت پر عمدہ روشنی ڈالتا نظر آتا ہے:
”غیاث متین کا تکیہ کلام تھا”اللہ بڑا بادشاہ ہے“، اپنے نام کے ا عتبار سے اس میں بھر پور متانت تھی لیکن حسِ مزاح بھی بلا کی تھی۔اس کی شخصیت سنجیدگی اور بذلہ سنجی کا مجموعہ تھی۔ اس کے اندر اپنے زخموں کو چھپانے کی پرانی عادت تھی۔ زمانے کے زخم، درد و الم کے زخم، اپنوں اور پرایوں کے زخم، اس کے مزاج میں برداشت کا مادہ بہت تھا۔لیکن وہ دو ٹوک بھی تھا، منہ پر کہہ دیتا ۔اس نے اپنی ابتدائی زندگی نہایت ہی تگ و دو میں گزاری تھی اور پرائمری اسکول ٹیچر سے یونیورسٹی کے پروفیسر تک پہنچا ۔“
(”یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ؟ غیاث متین کی یاد میں“ مضمون سے ماخوذ اقتباس)
رووف خلش نے از راہ ِکرم میرے شعری مجموعہ ”حرفِ معتبر“ پر نہایت وقیع مضمون تحریر کر کے اس گراں قدر تصنیف میں جگہ عطا فرمائی ہے جس کے لئے میں بہت ممنون ہوں۔ علاوہ ازیں جدہ میں مقیم دوستوںمیں ہر شخص کا انہوں نے نام بنام تذکرہ کیا ہے۔ جدہ کے حیدرآبادی ادبی حلقوں کے علاوہ ہر ذی علم شخص کا نام انہوں نے اپنے اکثر مضامین میں تحریر کیا ہے۔مشہور ادیب ، شاعر اور ماہر اقبالیات سید مصلح الدین سعدی کے علمی ذوق ، مقبولیت و محبوبیت اور سعدی صاحب کے قیام جدہ کے دوران شہر جدہ میں اردوداں شخصیات اور حلقوں کی خدمات پر بھی روشنی ڈالنے کے لئے یہ مضمون کافی ہے۔ سعدی صاحب کی شخصیت ، صلاحیت و لیاقت کے سلسلے میں ان کا اعتراف ملاحظہ ہو۔ 
”سعدی بھائی کا حافظہ غضب کا تھا۔ علم و ادب کے مسائل ہوں، دینی مسائل ہوں یا تہذیبی و ثقافتی مسائل ان کا اپنا نقطہ نظر ہوتا۔ اختلافی امور میں الجھنا ان کی عادت نہ تھی۔ قائل کرانے کا ان کا اپنا انداز ہوتا۔ (ادبی محافل کی) صدارت کرنے پر مجبور کئے جاتے ۔ جدہ سے باہر سعودی عرب کے دوسرے مقامات مثلاً ریاض، مدینہ منورہ ، تبوک، دمام اور ینبع میں بھی بلائے جاتے۔ جتنے اچھے وہ مقرر تھے، انشا پرداز تھے، ماہر اقبالیات تھے، اتنے ہی اچھے شاعر بھی تھے۔سعدی بھائی کہتے کہ نظریاتی اختلاف ہونا چاہئے کیونکہ کوئی بھی نظریہ آخری نہیں ہوتا لیکن خیال یہ رکھنا چاہئے کہ دل میں رنجش نہ آنے پائے۔“
( ”ہمارے سعدی بھائی اور سعودی عرب کی یادیں“ مضمون سے ماخوذ اقتباس) 
مجھے یہ قطعی طور پر احساس ہے کہ اس جامع و کامل تحریروں پر مبنی مجموعہ نثر پر میرا مختصر تعارفی تبصرہ کافی نہیں ہے میں نے مضمون کی طوالت کے خوف سے صرف چند اقتباسات پر ہی اکتفا کرنا مناسب جانا ہے ورنہ ہر مضمون اپنی جہت او رموضوع ، شرح و تفصیل کے لحاظ سے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ ایک زندہ دل شاعر اور ژرف نگا ہ مصنف کی تحریر ہے۔ 
 
 

شیئر: