فلسطینی ماں تصویر کو غزہ میں بھوک کے انکار کے لیے استعمال پر شدید صدمے سے دوچار
فلسطینی نژاد کینیڈین شہری فائزہ نجار گذشتہ سال غزہ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھیں، لیکن وہ اپنی چار بالغ بیٹیوں کو ساتھ نہ لا سکیں۔
کینیڈا میں، جہاں وہ اپنے چھ دیگر بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، نجار نے کئی ماہ کی کوشش کے بعد اپنی بیٹیوں اور ان کے بچوں کو غزہ سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی۔
آخرکار گزشتہ ماہ وہ لمحہ آیا جب انہوں نے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر اپنی بیٹیوں اور سات نواسے نواسیوں کو گلے لگایا۔
لیکن جب اس جذباتی ملاپ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں تو اسرائیل کی حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے نجار کی جسمانی حالت کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ان کا صحت مند دکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ میں قحط کی خبریں جھوٹی ہیں۔
نجار، جو اس وقت 50 سال کی ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ایک ماں کے طور پر، یہ میرے لیے تباہ کن تھا۔‘
نجار نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ غزہ میں خود بھوکی رہیں۔
لیکن حال ہی میں، ایک سوشل میڈیا پوسٹ جسے 3 لاکھ سے زائد بار دیکھا گیا، نے غلط طور پر یہ ظاہر کیا کہ نجار حال ہی میں غزہ سے نکلی ہیں۔
اس پوسٹ میں کہا گیا کہ ’کیا آپ نے اُس عورت کو دیکھا؟ وہ تو بھوکی نظر ہی نہیں آتی۔‘
اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے، جہاں اسرائیل امدادی سامان کے داخلے کو سختی سے محدود کر رہا ہے۔ بھوک سے نڈھال اور بیمار بچوں کی تصاویر نے عالمی سطح پر غم و غصہ پیدا کیا ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ ’غزہ میں کوئی قحط نہیں ہے۔‘
فائزہ نجار کو جس تمسخر کا سامنا کرنا پڑا، وہ ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے چینل 14، جسے اکثر عبرانی فاکس نیوز کہا جاتا ہے، پر میزبانوں نے ’موٹی ماؤں‘ کا مذاق اڑایا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ اپنے بچوں کی خوراک چرا لیتی ہیں۔
نجار کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ تھی کہ ان کے خاندان کا ملاپ ایک جھوٹی مہم کا شکار بن گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اتنے دکھ، سب کچھ کھو دینے اور مرنے کے قریب ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں نے انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔‘
نجار نے مزید کہا ’میری بیٹیاں وہاں رہتی تھیں، ان کے بچے بھوکے سوتے تھے… اور ان کے خیموں کے باہر بم گر رہے تھے۔‘
اسرائیل کے حامی مبصرین نے نجار کے پوتے پوتیوں کے بظاہر صحت مند نظر آنے پر بھی سوال اٹھائے۔
نجار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اردن میں ان بچوں کو طبی امداد اور غذائی بحالی فراہم کی گئی تھی، جس کے بعد وہ کینیڈا آئے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ریسرچ فیلو مارٹ کین بیار کا کہنا ہے کہ نجار کو نشانہ بنانے والی پوسٹس آن لائن گمراہ کن مہم کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
ٹورنٹو کی میئر اولیویا چاؤ نے انسٹاگرام پر فلسطینی مہاجرین کے استقبال کی ویڈیو کو ہٹا دیا، کیونکہ اس پر خاندان کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے گئے تھے۔
چاؤ کی ویڈیو پر تبصروں میں بھی خاندان کی جسمانی حالت کو بنیاد بنا کر غزہ میں قحط کے دعووں کو جھٹلایا گیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے چیٹ بوٹ Grok نے بھی 2025 میں غزہ کے ایک بھوکے بچے کی اے ایف پی تصویر کو غلط شناخت کیا، اور کہا کہ یہ تصویر سات سال پرانی ہے اور یمن کی ہے۔ اس سے قحط کی خبروں کو جعلی قرار دینے کی مزید کوششیں ہوئیں۔
بروکنگز انسٹیٹیوشن کی محقق ویلیری ورٹشافٹر نے کہا کہ یہ دعوے ان جھوٹے بیانیوں سے مشابہ ہیں جو جنگ کے آغاز کے چند ہفتوں بعد پھیلائے گئے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی اداکاروں نے زخموں کا ڈرامہ رچایا۔
ورٹشافٹر کے مطابق ’یہ جھوٹے بیانیے اصل انسانی المیے سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔‘
اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 61,430 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جیسا کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اقوام متحدہ نے بھی ان اعدادوشمار کو معتبر قرار دیا ہے۔
جب نجار نے غزہ چھوڑا تو ان کی تمام بیٹیاں کینیڈین شہریت نہیں رکھتی تھیں۔
خاندان کے بچھڑنے کے بعد، وہ مسلسل اس خوف میں مبتلا تھیں کہ کہیں ان کے بچوں کی شہادت کی خبر نہ آ جائے۔
اب جبکہ ان کی بیٹیوں کو شہریت مل چکی ہے اور وہ بچوں سمیت کینیڈا آ چکی ہیں، ان کے داماد اب بھی غزہ میں ہیں، جہاں اقوامِ متحدہ کے مطابق قحط، غذائی قلت اور بیماری سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نجار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں صرف چاہتی ہوں کہ دنیا کو معلوم ہو کہ یہ بحران حقیقت ہے۔ انکار، موت کا باعث بنتا ہے۔‘