Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مناسک حج، سیدنا ابراہیمؑ کا اسوۂ حسنہ

حج ملت ابراہیمی کی یادگارہے، اللہ نے اس کے ذریعہ نہ صرف سیدنا ابراہیم ؑکا تذکرہ باقی رکھا بلکہ اسے باطن کی صفائی کا ذریعہ بنا دیا
* * * * مولانامحمد عابد ندوی ۔ جدہ* * * *
اللہ تعالیٰ دنیا میں ہر انسان کو آزماتا ہے جیسا کہ سورۃ العنکبوت کی ابتدائی آیات اور دیگر آیات میں بھی اس حقیقت کی طرف نشاندہی کی گئی ۔ انبیاء و رسل بھی اس امتحان و آزمائش سے مستثنیٰ نہیں بلکہ ایک حدیث میں رسول اللہ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ سب سے سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے پھر ان کی جو ( دین کے لحاظ سے اور مقام و مرتبہ میں ) ان سے قریب ہوں ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بھی سخت آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسی عظیم قربانیاں دیں کہ اس کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ وہ بت پرست گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
نہ صرف ان کا گھر بلکہ پورا شہر شرک و بت پرستی کا مرکز اور سرچشمہ تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جب ابراہیم علیہ السلام نے باپ کے سامنے حق و صداقت کی آواز اور توحید کا نعرہ بلند کیا تو وہ گھر سے بے گھر کئے گئے۔ والد نے بے رخی برتی تو قوم سے کسی وفا کی توقع کی جاسکتی تھی؟ چنانچہ توحید کے راستے اور وحدانیت کی تبلیغ میں انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت وقت سے تصادم ہوا تو بتوں کو برا بھلا کہنے کی پاداش میں زبردست آگ میں ڈالے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کیلئے آگ کو گل و گلزار بنا دیا اور وہ اس سے صحیح سالم نکل آئے ۔ قوم نے اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی حق کو قبول نہ کیا تو وہ وہاں سے ہجرت کرنے اور اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 80 سال کی عمر میں بڑی امیدوں ، آرزوؤں اور دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ایک بیٹا عطا ہوا جس کا نام اسماعیل رکھا گیا ۔
وہ اکلوتا ہونے کے سبب محبوب اور چہیتا تھا۔ ابھی اسماعیل کی دودھ پینے کی ہی عمر تھی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیوی ہاجرہ اور شیر خواربچہ اسماعیل کو حجاز مقدس کی بے آب وگیاہ سرزمین پر لے آئے جہاں پینے کیلئے پانی تک کا نام و نشان نہ تھا ۔ یہاں وہ ان دونوں ماں بیٹے کو چھوڑ کر جانے لگے تو بیوی نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب کھا نا پانی ختم ہوگیا اور بچہ پیاس کی شدت سے رونے لگا تو ماں بے باتاب ہوگئی اور اضطراب و بے چینی کے عالم میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی پہاڑی کی طرف دوڑنے لگیں کہ شاید کہیں کوئی چشمہ یا کوئی قافلہ نظر آجائے جس سے پانی طلب کیا جاسکے ۔
اسی تگ و دو میں ایک آواز سنائی دی ، دیکھا تو اسماعیل کی ایڑیوں تلے پانی کا چشمہ ابل رہا تھا یہ وہی چشمہ زمزم ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا جہاں کو سیراب کررہا ہے۔ کچھ مدت بعد جب اسماعیل چلنے پھرنے لگے اور دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ایک اور امتحان لینا چاہا اور وہ اکلوتے بیٹے اسماعیل کی قربانی تھی ۔ سیدناابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا ، انبیاء کا خواب وحی کے حکم میں ہوتا ہے ۔ وہ منشائے الٰہی سمجھ گئے ۔بلا تامل بیٹے کو اللہ کے نام پر قربان کرنے کیلئے فلسطین سے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ بیٹے کو ذبح کرنا تو کیا اس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بیٹا بھی برضا و رغبت تیار ہوگیا اور باپ کو صبر و استقامت کا پیغام سنایا ۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹے کی گردن پر چھری پھیردی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا ان کے عوض مینڈھا بھیج کرچھری کو حکم دیا کہ اسے ذبح کردیا جائے(صافات 99-113) پھر کچھ مدت بعد اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام ذوق و شوق سے کعبہ کی دیواریں اٹھاتے اور ساتھ ہی خلوص وعقیدت سے دعا کرتے جاتے تھے کہ اے اللہ !ہماری یہ خدمت قبول فرما اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا(البقرہ 127) جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں اس گھر کی زیارت ( حج کرنے) کا اعلان کردو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار!اس ویرانے سے باہر آبادیوں تک میری آواز کیسے پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کے’’ اعلان کرنا تمہارا کام ہے اور اسے لوگوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے‘‘چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پہاڑی پر چڑھ کر آواز لگائی اور لوگوں کواللہ کے گھر کی زیارت کا حکم دیا اور اللہ نے نہ صرف دنیا میں اس وقت موجود لوگوں تک یہ اعلان پہنچایا بلکہ عالم اروا ح میں قیامت تک دنیا میں آنے والی روحوں نے بھی یہ اعلان سنا اور جس کی قسمت میں حج کی سعادت مقدر تھی اس نے لبیک کہا ۔
حج کا تلبیہ لبیک اللھم لبیک دراصل اسی ندائے ابراہیمی کا جواب ہے۔قربانی اسی ’’عظیم قربانی‘‘کی یادگار ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعا لیٰ کے حضور پیش کی تھی۔ صفا و مروہ کے درمیان سیدہ ہاجرہ کے دوڑنے کی ادا اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اسے بھی حج و عمرہ کی عبادت کا ایک حصہ بنادیا اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کو اس کی نقل کا حکم دیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رمی جمار بھی سنت ابراہیمی کی یادگار ہے ،وہ اس طرح کہ جب آپؑ بیٹے کو قربانی کرنے کیلئے ا نہیں ساتھ لے چلے تو راستے میں 3مقامات پر شیطان نے آپؑ کو ورغلایا اور حکم الٰہی کی تعمیل سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔
ان جگہوں پر آپ ؑنے شیطان کو 7،7کنکریاں ماریں۔ الغرض حج ملت ابراہیمی کی یادگارہے اللہ نے اسے دین اسلام کا رکن قراردیکر نہ صرف یہ کہ سیدنا ابراہیم ؑکے تذکرہ اور ان واقعات کو باقی رکھا بلکہ اسے باطن کی صفائی ، قلوب کے تزکیہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ بنا دیا ۔ حج کے جہاں اور بہت سے فوائد اور مقاصدہیں وہیں ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ حاجی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ’’اسوہ ٔحسنہ‘‘ کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری ، اس کے آگے خود سپردگی ، سخت سے سخت حالات اور امتحان و آزمائش میں بھی صبرو ہمت اور ثبات و استقامت کے عہد کی تجدید کرے۔
خلوص و للہیت کے ساتھ مناسک کو ادا کرتے ہوئے یہ عزم لیکر وطن لوٹے کہ اب باقی زندگی اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کی مرضی کے مطابق ہی گزرے گی چاہے اس کیلئے نفس و شیطان سے مقابلہ کرنا پڑے اور بڑی سے بڑی قربانی دینا پڑے۔ اگر حاجی کے اندر یہ عزم صادق پیدا ہوجائے تو اس کا حج مقبول اور سفر کا میاب ہوگیا۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ گناہوں سے پاک صاف نہ ہو اور اسے جنت کی خوشخبری نہ دی جائے۔ جیساکہ احادیث میں حج کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے حاجی گناہوں سے پاک صاف ہوکر لوٹتا ہے نیز یہ کہ حج مبرور کا بدلہ جنت سے کم نہیں۔

شیئر: