Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوچو کے والدین کی 11اولادیں، 8زنانہ،3مردانہ

 
 اُس دور میں پیسے ،آنے ہوتے تھے، وزیر کی تنخواہ  244روپے12 آنے ،3پیسے ہوا کرتی تھی
 
شہزاد اعظم
پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں واقع ایک صدی قبل کے دور کا محلہ تھا جس کے داخلی  راستے پر بہت اونچا، دبیز، بھاری بھرکم اور جسامت کے لحاظ سے ہر کس و ناکس کو دہلا دینے والا لکڑی کادروازہ تھاجو ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس قلعہ نما محلے کے ایک سہ منزلہ مکان میں ہم ممتا سے معمور اپنی والدہ کی محبتیں سمیٹتے اور والد صاحب کی جانب سے ہونے والی زبانی اور عملی ”چھترول“برداشت کرتے زندگی کے ابتدائی دن گزارنے میں مشغول تھے۔ہمارے کرائے کے مکان کے سامنے ایک گھر تھا جس میں منور صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ چار منزلوں میں مقیم تھے۔ ان کی زنانہ اور مردانہ، دونوں قسم کی کُل 11اولادیں تھیں۔ سب سے چھوٹا” چوچو “تھا، وہ ہمارا ہم عمر تھا اس لئے اُسی سے ہماری گاڑھی چھنتی تھی۔ دیکھنے میں وہ بے حد خوبصورت تھا۔ اسی لئے والدین کے علاوہ8زنانہ اور 2مردانہ شخصیات سمیت سارا گھرانہ ہی ”چوچو“ کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ 
پانچویں جماعت تک تو ہمیں اور ”چوچو“ کو ہمارے اباجان حضرات ہی اسکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد جیسے ہی ہم نے چھٹی جماعت میں قدم رکھا، والدین نے فرمایا کہ اب آپبڑے ہوچکے ہیں، آپ خود اسکول جایا کیجئے۔ ہمیں بہت خوشی ہوئی ، دل ہی دل میں ہم نے ٹھٹھے لگانے شروع کر دیئے کہ اب ہم اپنی مرضی سے جس راستے سے چاہیں گے جایا کریں گے،سڑکوںاورفٹ پاتھوں پر آتی جاتی شخصیات میں سے جس سے چاہیں گے، سمعی و بصری روابط استوار کریں گے اور جس کو چاہیں گے، عدم توجہی کا شکار کر دیں گے۔ ہم نے اپنے گھر کے ہال کمرے کی کھڑکی کا منقش چوبی کواڑ کھول کر ”چوچو“کو زور دار انداز میں آواز دی۔ وہ فوراً ہی اپنے برآمدے میں آگیا۔ ہم نے کہا کہ کل صبح دونوں اکٹھے اسکول جائیں گے۔ اس نے ہامی بھر لی۔
اگلی صبح ہم خلافِ معمول اسکول جانے کے لئے انتہائی ذوق و شوق سے تیار ہوئے، الاسٹک والی ٹائی گلے میں ڈالی ، اودے رنگ کا سویٹراور سلیٹی رنگ کی پتلون چڑھائی، نئے جوتے ”زیبِ پا“ کئے،بستہ گلے میں ڈالا۔اباجان تو دفتر جا چکے تھے، اس وقت امی ہی موجود تھیں انہوں نے ہمیں چند احکامات دیئے کہ فٹ پاتھ پر چلنا، دونوں جانب دیکھ کر سڑک عبور کرنا۔دائیں بائیں دیکھتے ہوئے آنکھیں کھلی رکھ کر تیز تیز چلنا۔ گھر سے اسکول جانا اور اسکول سے چھٹی ہوتے ہی سیدھے گھر کی راہ لینا، کہیںاِدھر اُدھر جانے کی کوشش کی تو ٹانگیں توڑ دوں گی۔خیر ہم والدہ کی تحکمانہ نصائح یا ناصحانہ تحکم کی سماعت کے بعد گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ ”چوچو“کو ساتھ لینے کے لئے اس کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ وہ باہر نکلا تو اسے دیکھ کر ہم حیران و پریشان رہ گئے۔ اس کے سر کے بال جنگلیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔دونوں گالوں پر اس نے کالک مل رکھی تھی۔ہماری نظر جیسے ہی اس پر پڑی، ہم دہل کر رہ گئے۔ ہم نے اس سے استفسار کیا کہ آخر یہ سب کیا ہے؟ ”چوچو“نے جواب دیا کہ :
”یار ! آپ تو جانتے ہی ہیں، آج کل بچوں کے اغوا کی وارداتیں بہت ہونے لگی ہیں۔ میری امی نے کہا ہے کہ اغواکار، خوبصورت بچوںکی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں انہیں خوبصورت بچہ اکیلا جاتا ہوا نظر آئے وہ اس کا پیچھا کرنے لگتے ہیں اور موقع پاتے ہی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔اس لئے انہوں نے میرے منہ پر کالک مل کر مجھے تیار کیا اور ”حکم“ دیا ہے کہ اسکول جاتے ہوئے راستے بھر میں ٹیڑھا منہ کر کے چلوں تاکہ دیکھنے والوں کو نہ صرف یہ کہ میں کالا پیلا دکھائی دوں بلکہ بدصورت بھی نظر آ¶ں اور کوئی اغوا کار اگر دیکھے تو وہ مجھے انتہائی بدصورت اور بھیانک سمجھ کر اغوا کا ارادہ ترک کر دے بلکہ ممکن ہے کہ اپنا ”پروفیشن چینج“ کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے۔ہم نے دل ہی دل میں سوچا کہ ”ہم تو اس زمرے میں شمار ہی نہیں ہوتے ۔ اغوا کار اگر ہمیں غلطی سے اٹھا کر لے بھی جائے اور پھر اپنے باس کے سامنے ہمیں پیش کرے تو اس کا باس یعنی سرغنہ اسے اتنا مارے گا، اتنا مارے گا کہ چھٹی کا دودھ یا د دلا دے گا اور پھریہ کہہ کر اپنے اغوا کار گروہ سے نکال دے گا کہ ”بے غیرتا، تیری عقل ماری گئی ہے۔ یہ کس ”فٹے منہ“ کو اٹھالایا ہے؟ اسے آگے فروخت کریں گے تو کون خریدے گا؟“یوں وہ اغوا کار سوچے گا کہ ”ایہہ میں کیہ کیتا ای “ یہ کہہ کر وہ پہلے تو اپنے اس ”بلنڈر“ یعنی ”فاش غلطی“ پر دل و جان سے نادم و شرمندہ یا تو ہمیں خود ہی اغوا کے مقام پر واپس چھوڑ جائے گا اوراگر اسے فرصت نہ ہوئی تو ہمیں گھر واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے آزاد کر دے گااور کہے گا کہ جا میرا پیچھا چھوڑ دے اور آئندہ بھولے سے بھی اس جانب آنے کی کوشش نہ کرنا۔
وقت کا پہیا چلتا رہا۔ پہلے ہم اور ”چوچو“ ایک ساتھ اسکول جاتے تھے، پھر ایک ساتھ کالج بھی جانے لگے، مزید وقت گزرا تو ایک ساتھ جامعہ میںبھی پہنچ گئے۔جامعہ سے فارغ ہوتے ہی ”چوچو“کوملازمت بھی مل گئی۔ اس کی باس نے اسے 1800روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا۔ اس کی یہ تنخواہ اس دور کے حساب سے بہت زیادہ تھی اس لئے وہ فخر سے سب کو اپنی تنخواہ بتایا کرتا تھا ۔ اس کی تنخواہ کی ”مقدار“ سن کر کئی شادی شدہ ہستیوں کو دل میں درد یا جگر میں جلن کی شکایت ہونے لگتی تھی۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب پائی ”ایجاد“ نہیں ہوئی تھی بلکہ پیسے ،آنے، دُوَنّی، چونّی، اٹھنّی اور روپیہ ہوا کرتا تھا، یہ اس دور کی بات ہے جب ہمارے ہاں وزیر کی تنخواہ بھی 244روپے12آنے ،3پیسے ہوا کرتی تھی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب جس کی تنخواہ 130روپے ہوتی تو اس کی گردن یوں اکڑ جاتی تھی جیسے اس میں مستقل سریا ٹھوک دیا گیا ہو، وہ عام جھام افراد بات کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب کسی لڑکی کو بیاہنے کے لئے صرف 1220روپے کی ضرورت ہوتی تھی۔لڑکی کا جہیز 431روپے میں بن جاتا تھا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب نئی نویلی دلہن کا مہر صرف 55روپے ہوا کرتاتھا۔اسی لئے خلع کے واقعات بھی کم ہوتے تھے کیونکہ دلہن سوچتی تھی کہ اگر اس شوہر سے خلع لے بھی لیا تو 55روپے ملیں گے، اس سے میں کون سا تیر مارلوں گی اس لئے بہتر ہے کہ اسے کے ساتھ زندگی گزار دوں۔ یہ ا ُس دور کی بات ہے جب بھکاری بھی پیسوں میں بھیک مانگا کرتے تھے اور یوں آواز لگاتے تھے کہ ایک پیسے کا سوال ہے بابا۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب سرکاری، نیم سرکاری، غیر سرکاری اور نجی شعبوں میں ”رشوت“کی بھی حدود مقرر تھیں ۔ یہ کم سے کم 4آنے اور زیادہ سے زیادہ 10روپے تک ہوتی تھی یعنی چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر بڑے سے بڑا کام صرف10روپے میں کردیاجاتا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب قومی خرانے کی ”لوٹ مار“ بھی ایک حد میں رہ کر کی جاتی تھی۔کوئی بڑے سے بڑا طرم خاں جب خزانے سے رقم لوٹتا تو وہ زیادہ سے زیادہ ہزاروں میں ہوتی تھی ۔ ہم نے اُس دور میں کوئی”سرکاری لوٹ مار“ ایسی نہیں سنی تھی جو کی مقدار ہزاروں سے نکل کر لاکھ تک پہنچ گئی ہو۔ ہمیں یاد ہے، ہمارے محلے کا ایک افسرغبن کرنے والوں میں سرفہرست تھا ، اس نے صرف 99ہزار 999روپے ڈھائی آنے کا غبن کیا تھا۔یہ رقم لے کر وہ بیرون ملک چلا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی تمام نسلیں ”چپٹی“ ہیں کیونکہ وہ بیرون ملک ہی پیداہوئیں اور آج بھی وہیں بود و باش رکھتی ہیں۔یہ اُس دور کی بات ہے جب چور بھی ایک حد کے اندر رہ کر چوری کیا کرتے تھے۔ اگر انہیں 20روپے کی ضرورت ہوتی تو وہ زیادہ سے زیادہ21روپے6آنے چرا لیتے تھے۔ اس سے زیادہ چوری کو وہ بھی ”فضول خرچی اور عیاشی“ تصور کرتے تھے۔
اب ذرا تصور کیجئے کہ ایسے سادہ، شریف، مخلص، پُرامن، محبت و اپنائیت سے معمور انتہائی سستے بلکہ لنڈے پن کی حد تک ارزاں دور میں ”چوچو“کی1800روپے تنخواہ کے بارے میں سن کر لوگوںکا حال کیاہوا ہوگا۔ حالت یہ ہوئی کہ ہٹے کٹے پہلوان نما انسان بھی ”چوچو“کی تنخواہ کے بارے میں سن کر دانت پیستے اور ناخن کترتے رہ گئے اور جہاں تک صنف نازک کا تعلق ہے تو کچھ نہ پوچھئے، ہر روز ایک نیا جوڑا ”چوچو“ کے دروازے پر دستک دیتا دکھائی دیتا اور وہ دہائی دیتا کہ ہماری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا لیجئے۔ ایک سے ایک حسین شخصیت کا رشتہ گھر میں آتا مگر ”چوچو“کی والدہ صاف انکار کر دیتیں....(باقی پھر سہی)
 
 
 
 
 
 

شیئر: