Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اختلاف کو اختلاف تک ہی رکھیں

مسلمان کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو،اس کے دل میں محبت رسولموجزن ہوتی ہے
* * * *محمد عتیق الرحمن * * *
رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی۔لوگ نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔تبلیغی جماعت والے ایک مسجد میں چنددنوں کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے۔رات آدھی سے زیادہ گزرچکی تھی کہ یکدم یوں لگا جیسے کوئی کسی کو قتل کررہا ہے۔تبلیغی جماعت والوں نے دیکھا تو یہ کہیں اور نہیں بلکہ مسجد میں ان پر ٹوٹی ہوئی افتاد تھی۔ایک تبلیغی بوڑھا اُس نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوچکا تھا جبکہ دوسرا شدید زخمی تھا۔قتل کرنے والے کو پکڑ کر حوالۂ پولیس کیا گیا اورزخمی کو ہسپتال پہنچادیا گیاجوکہ بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ ہمارے معاشرے میں قتل کرنا عام سی بات بن چکی ہے۔تھوڑے سے اختلاف اور چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے عدم برداشت کی وجہ سے قتل تک پہنچ جاتے ہیں۔ افسوس کہ یہ اُس ملک میں ہورہا ہے جس کی بنیاد اسلام پر ڈالی گئی تھی۔عام افراد سے کیا توقع رکھیں،یہاں تو مساجد کے ائمہ کرام ہی فتاویٰ جات کے دفاتر اٹھائے پھرتے ہیں۔
مذکورہ واقعہ بھی کسی مولوی کے فتویٰ کا مرہون منت ہے۔چھوٹی سی بات پر اختلاف ہوا اور مخالف فرقہ کے مولوی نے گستاخ کا فتویٰ دے دیا۔گستاخ کی سزاموت ہے لیکن یہ سزاکون دے اور کیسے دیگا، اس متعلق مولوی بتانے سے گریز کرتا ہے۔چنیوٹ کے نواحی علاقے میں ہونے والے اس واقعہ میں قتل ہونے والا تبلیغ اسلام کیلئے نکلا اور مسجد میں ہی گستاخی کی ’’سزا‘‘پاگیا۔ یہ ایک واقعہ ہے جو نظروں سے گزرا۔ اس سے پہلے بھی کئی واقعات ایسے ہوچکے ہیں جن میں مخالف فرقہ نے گستاخی کا فتویٰ لگایا اور عوام میں سے کسی نہ کسی نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر اپنی مساجد ومدارس کے دروازے بند کرنا اور ان کیخلاف بھولے بھالے عوام کو تشددپرابھارنا ایک ایسا سیاسی داؤ ہے جسے آج ایک مخصوص طبقہ بڑی ہوشیاری سے استعمال کررہا ہے لیکن وہ یہ بھول چکاہے کہ اسکے مضمرات پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔پوری دنیا میں امام مالکؒ،امام احمد بن حنبلؒ،امام شافعی ؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے مقلدین اوراہلحدیث موجود ہیں لیکن جو حال برصغیر پاک وہند میں اسلام کے ساتھ کی گیا ہے، اس نے اغیار کواسلام کی دشمنی پرمزید ابھارا ہے۔مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود حج کے موقع پر حنبلی،شافعی،مالکی،حنفی،اہلحدیث،حنفی بریلوی اورحنفی دیوبندی ایک ہی امام کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں لیکن برصغیر پاک وہند میں آتے ہی ان میں اپنا مکتبۂ فکر اس قدر عود کرآتا ہے کہ دوسرے پر کفر کا فتویٰ ان کی نوکِ زبان پر ہوتا ہے۔
اگرچہ اس میں اس وقت کمی واقع ہوچکی ہے،نوجوان طبقہ بڑی حد تک تحقیق کرکے آگے بڑھتا ہے لیکن اُن مسجدوں کے اماموں کا کیا کیا جائے جو سستی شہرت کیلئے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ مسلمان کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو،اس کے دل میں محبت رسولموجزن ہوتی ہے۔ اس میں کمی وبیشی ہوسکتی ہے لیکن اس کے بغیر کوئی بھی مسلمان نہیں ہوسکتااور نہ ہی کوئی مسلمان اپنے آپ کو محب رسولسے مستثنیٰ قراردیتا ہے۔اسلامی ملکوں کے درمیان تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا عالمی قوتیں ہمارے مخالف مکتبہ فکر سے شدید اختلاف کو اپنے ہاتھوں میں استعمال کرتی ہے۔اگر صرف پاکستان کی مثال دی جائے تو اس میں ماضی میں کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جب مخالف مکتبہ فکر پر مختلف قسم کے فتاویٰ جات کی مدد سے تشددکیا گیا اور ملکی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا گیا۔مخالف مکتبہ فکر نے پھر جواب میں ان سے بڑھ کر تیاری کی اور چڑھ دوڑے۔دشمن دوربیٹھا ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہوتا رہا۔میں مانتا ہوں کہ کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں واقعی گستاخی کی گئی ہے لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اور موقع پر ہی عوام کی عدالت لگا کر قتل کردینا کہاں کی محبت ہے؟پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کو آگے بڑھ کر اس آگ کو روکنا ہوگا۔اختلاف کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن اختلاف کی آڑ میں گستاخی کرنا، آپ کا ہرگز حق نہیں اور اگر کوئی ایسابندہ ہے بھی تو اسے قانون کے حوالے کیا جائے۔ایسے لوگ جو اس طرح کے فتاویٰ جات بانٹتے ہیں اور دوسرے مکتبہ فکر کو گالیاں دینا ان کے لئے عام بات ہے انہیں سنبھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر مخالف نے بھی وہی طرزعمل اختیارکرلیا تو ان کا پلہ بھاری ہوگا کیونکہ ماضی میں وہ اس کا تجربہ کرچکے ہیں۔بریلوی،دیوبندی،اہلحدیث اوراہل تشیع علمائے کرام آگے بڑھ کر خدارا اس کوروکیں، ملک میں دہشتگردی پرقابوپایا جارہا ہے اورمذہب پسند لوگ آگے بڑھ کر اسلام کے نظام کیلئے کوشاں ہیں۔ایسے میں شدت پسند نام نہاد مذہب کے ٹھیکیدارناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

شیئر: