Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسرائیلی حکومت سے الگ، نتین یاہو کے لیے دھچکا

غزہ جنگ کے تناظر میں اتحادی جماعت کی علیحدگی کو نیتن یاہو حکومت کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل کی حکومت میں شامل ایک انتہائی دائیں باز کی مذہبی جماعت نے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے جس کو غزہ کی جنگ کے تناظر میں وزیراعظم بینامین نیتن یاہو کی حکومت کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یونائیٹڈ تورہ جیوڈیزم کے دو دھڑوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے اس بل پر اختلافات رکھتے ہیں جو ان کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی فوج میں بھرتی کے لیے دی جانے والی چھوٹ کا تعین کرے گا اور وہاں کے لوگوں میں ایسے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جو فوج میں جانے کے بجائے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس معاملے نے اسرائیلی یہودیوں کو طویل عرصے سے تقسیم کر رکھا ہے جن میں سے زیادہ تر کے لیے اندراج کروانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ غزہ جنگ چھڑنے کے بعد گھمبیر ہوا ہے کیونکہ فوج میں افرادی قوت کی طلب بڑھی ہے۔
اسرائیلی سیاست کی ایک ایسی پارٹی جو طویل عرصے تک کنگ میکر رہی ہے، کی حکومت سے علیحدگی نیتن یاہو کی حکومت کے لیے فوری طور خطرہ نہیں ہے مگر جب 48 گھنٹے کے اندر جب وہ عملی طور پر الگ ہو گی تو اس کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کی حکومت کو ایسی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے جس میں اس کو دائیں بازو کی دو جماعتوں کی خواہشات پر انحصار کرنا پڑے گا۔
وہ جماعتیں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی رعایت کی مخالفت کرتی ہیں اور غزہ میں جنگ ختم کرنے حتیٰ کہ روکنے کے اقدام پر بھی حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دے چکی ہیں۔
یہ سیاسی ہلچل ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب 21 ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیل اور حماس بات چیت کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ کے علاوہ قطر اور مصر کے ثالتوں کی جانب سے جنگ بندی کے لیے ڈالے گئے دباؤ کے باوجود ابھی تک مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اسی طرح ایک اور اہم رکاوٹ یہ بھی رہی ہے کہ آیا جنگ بندی کے معاہدے کے بعد واقعی جنگ بند ہو جائے گی کیونکہ حکومت کے دائیں بازو کے اتحادی تب تک جنگ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں جب تک حماس کا وجود باقی ہو۔
یونائیٹڈ تورہ جیوڈیزم کا اعلان 48 گھنٹے بعد نافذ ہو جائے گا جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو اب بھی اس کو مطمئن کرنے کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں اور اس کو واپس اتحاد میں لا سکتے ہیں۔
تاہم جیوئش پیپل پالیسی انسٹیٹیوٹ کے نائب صدر شوکی فرائڈمین کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹیبل پر موجود بل اور پارٹی کے مطالبات کے درمیان اب بھی وسیع فرق ہے جس کی وجہ سے کسی سمجھوتے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
کابینہ میں شامل اور نیتن یاہو کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر مکی زوہر نے امید ظاہر کی ہے کہ پارٹی دوبارہ اتحاد میں شامل ہو جائے گی۔

 

شیئر: