Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”بیٹیاں تو پھول کی مانند ہیں “

 شعلوں نے لپیٹ میں لے لیا، میں بچاﺅ، بچاﺅ چلاتی رہی 
زکیر احمد بھٹی
 
میری ساس پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہوئی تھیں، کسی بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہ دونوں ماں بیٹا پتہ نہیں کتنی دیر باتیں کرتے رہے ۔رات بھر پریشانی کی وجہ سے مجھے نیند بھی نہیں آ رہی تھی میں مسلسل ایک ہی بات سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں اب یہ صورتحال ہے تو آگے کہ زندگی کیسے گزرے گی ۔یہی سوچتے سوچتے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ جب صبح میری آنکھ کھلی تو سورج نکلے کافی دیر ہو چکی تھی۔ میں گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ اسی اثناءمیں کمرے سے باہر آتے ہوئے میری ساس نظر آئیں اور میرے شوہر امتیاز کو آواز دیتے ہوئے غصے میں بولیں کہ امتیاز کہاں مر گئے ، پتہ نہیں دن نکل آیا ہے۔ ہم کب جائیں گے اور کب واپسی ہوگی؟ 
امی جان کا شور سن کر میرے شوہر کمرے سے جلدی سے باہر آ ئے اور آتے ہی کہنے لگے کہ میں تیار ہو رہا تھا اس لئے دیر ہو گئی۔ امی جان خاموش رہیں اور باہر کی طرف چل پڑیں۔ میرے شوہر بھی خاموش رہے اور امی جان کے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔میں کچن سے یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔ میرا دماغ پہلے ہی کام نہیں کررہا تھا اور پھر یہ سوچ میرے خیالات کو بہت دور تک لے گئی کہ آخر یہ دونوں ماں بیٹا کہاں گئے ہیں؟ میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اندر سے میری بیٹی نیلم کے رونے کی آواز آئی۔ میں بھاگ کر اندر گئی اور اسے چپ کروانے کے لئے سینے سے لگایا مگر وہ بھوک کی وجہ سے چپ نہیں ہو رہی تھی ۔میں اسے گود میں ہی اٹھا کر کچن میں گئی تاکہ اسے دودھ گرم کرکے دوں مگر جب دیکھا تو دودھ نہیں تھا ۔میں نے بیٹی کو کمرے میں بٹھا کر ہمسایوں کے ہاں گئی ۔ وہاں مجھے مہوش ہی نظر آئی۔ جب میں نے مہوش سے پوچھا کہ آج آپ لوگوں نے ہمارے گھر کیوں دودھ نہیں دیا، خیریت توہے ناں؟ اس پر مہوش نے کہاکہ بھابھی! بات تو کوئی نہیں، امی اور ابو گھرپر نہیں تھے۔ وہ کسی کام سے صبح ہی صبح چلے گئے تھے۔ اس لئے میں چاچی بشیراں کی وجہ سے دودھ پہنچانے آپ کے گھر نہیں گئی۔ میں نے کہاں کہ امی جان تو گھر پر نہیں، اور آپ کے بھائی بھی باہرکہیں گئے ہےں کام سے۔ اتنے میں مہوش کہنے لگی کہ مجھے پتہ تھا کہ وہ آج لازماً آپی شبنم کی طرف جائیںگے۔ میں نے کہا کہ شبنم کی طرف کیوں، خیر تو ہے اور یہ تمہیں کیسے پتہ ہے کہ وہ شبنم کی طرف لازمی جائیں گے ؟ میری بات سن کر مہوش خاموش ہو گئی ۔میں نے کہا مہوش! آپ میری سہیلی ہو اور چھوٹی بہنوں کی طرح ہو، پلیز !مجھے بتاﺅ کہ آخر بات کیا ہے؟ میرے گھر کے بارے تو آپ کو پتہ ہی ہے اس لئے مجھے بتاﺅکیا ہوا ہے شبنم کو؟ امی جان اور میرے شوہر کیوں گئے ہےں شبنم کی طرف؟
مہوش نے کہاکہ بھابھی آپ کو پتہ ہے ناں چاچی بشیراں کی عادت کا ،مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کو پتہ چل گیا تو وہ ہمارا کیا حال کرے گی؟ میں نے مہوش کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مہوش ،پلیز میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ،مجھے بتاﺅہوا کیا ہے؟ مہوش نے میرے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ بھابھی ایسانہ کریں،میں بتاتی ہوں۔ بھابھی !آپی شبنم کی بھی اپنے شوہر سے لڑائی ہوئی ہے اور وہ کہتا ہے کہ اب میں نے اسے نہیں رکھنا اور یہ باتیں رات کو چاچی بشیراں اور بھائی امتیاز دونوں کر رہے تھے جو میں نے سنی تھیں۔ اسی لئے مجھے امید تھی کہ آج وہ آپی شبنم کی طرف ضرور جائیں گے ۔یہ بات سنتے ہی میرے دل کو پتہ نہیں کیا ہوا ،میں نے مہوش کی پوری بات بھی نہیں سنی اور جلدی سے دودھ لے کر گھر واپس آ گئی۔
گھر آکر میں نے جلدی سے نیلم کے لئے دودھ گرم کیا۔ میرے ذہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے کہ اب امی جان اور میرے شوہردونوں، واپس آ کر شبنم کے سسرال کا غصہ بھی مجھ پر ہی اتارےں گے۔میں یہی دعائیں کر رہی تھی کہ سب خیر رہے ۔ شبنم کے گھر میں بھی کوئی زیادہ الجھن نہ ہو مگرقسمت کو نجانے کیا منظور تھا ۔دوپہر کا وقت تھا ،میرا بیٹا امجد بھی اسکول سے واپس آ گیا۔ میں نے اس کے کپڑے تبدیل کئے اور کھانا دیا۔ امجد کہنے لگا کہ ماما !آج پاپا اور دادی اماں نظر نہیں آ رہے، کہاں گئے ہےں؟ میں نے پیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کام سے باہر گئے ہےں۔ بس تھوڑی دیر میں آ جائیں گے۔ امجد کھانا کھا کر فارغ ہوا تو کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگا گیا اور میں گھر کی صفائی میں لگ گئی۔ ابھی گھر کی صفائی کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ باہر دروازے پر بیل ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میری ساس ،میرے شوہر سامنے کھڑے تھے اور ان کے ساتھ شبنم بھی تھی۔ شبنم کو دیکھتے ہی مجھے دن میں تارے نظر آنا شروع ہوگئے ۔ میرے شوہر نے مجھے بازو سے پکڑ کر راستے سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا کہ جب سے یہ ہمارے گھر میں آئی ، لگتا ہے کسی کی نظر لگ گئی ہے ۔ بیٹے کے ساتھ ان کی ماں نے بھی میری بے عزتی کرنے میں کوئی کسر نہ رہنے دی۔انہوں نے میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کوبرا بھلا کہا۔ میری ساس نے کہا کہ جب سے یہ بدنام خاندان کی لڑکی ہمارے گھر میں آئی ہے، اس نے سب کچھ تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے میری بہنوں کو اتنا کچھ کہا کہ جو کسی بھی عزت دار کے لئے مرنے کا مقام ہے تاہم میری برداشت اس وقت جواب دے گئی جب میرے شوہر نے میری چھوٹی بہنوں کے کردار پر کیچڑ اچھالنا شروع کیا۔ میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ پلیز!جو کہنا ہے مجھے کہیں، میرے گھر والوں کو کچھ نہ کہیں۔ اس گھر میں میری زبان سے نکلنے والے یہ میرے آخری الفاظ تھے کہ میری ساس نے شبنم سے کہا کہ جاﺅ اندر سے مٹی کا تیل لے کر آﺅ۔ شبنم جانے ہی لگی تو میرے شوہر نے اسے روک دیا اور جلدی سے خود ہی تیل لینے چلے گئے کچھ دیرکی تلاش کے بعد واپس آ کر کہنے لگے کہ امی گھر میں تیل نہیں ہے۔ میری ساس نے بڑے غصے سے میرے شوہرسے کہا کہ جا بے غیرت، موٹرسائیکل سے پٹرول ہی نکال لا۔اس نے میری بیٹی کا گھر اُجاڑا ہے تو میں اس کا گھر بھی آباد نہیں رہنے دوں گی۔ آج اس کو مار کر ہی دم لوں گی۔ اب یہ رہے گی یا میں۔
اتنے میں میرے شوہر پٹرول لے کر آ گئے اوراسے میرے اوپر ڈالنا شروع کر دیا۔ میری نند شبنم جلدی سے کچن میں گئی،ماچس لے کر آئی اور تےلی جلا کر میرے اوپر پھنک دی ۔ آن کی آن میں شعلوں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا، میں بچاﺅ، بچاﺅکہہ کر چلاتی رہی مگر جنہوں نے مجھے آگ لگائی تھی،صرف وہی میرے ارد گرد تھے، انہوں نے مجھے کیا خاک بچانا تھا۔میری چیخیں سن کر محلے والے اکٹھے ہو گئے مگر میری ساس کی وجہ سے کوئی پاس نہیں آیا ۔ جب آگ بجھی، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ مجھے کوئی ہوش نہیں رہا تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔
کل رات ہی مجھے ہوش آیا۔ یہ دن میں نے کس قدر اذیت میں گزارے، یہ میں جانتی ہوں اور میرا رب کریم جانتا ہے ۔ زندگی کا تو مجھے اب بھی پتہ نہیں کہ یہ کتنی باقی ہے اور کس وقت میری موت آ جائے گی۔اگر میں کچھ سوچتی ہوں توصرف اپنے بچوں کے بارے میں کہ میرے بعد ان کا کیا بنے گا؟ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟
میں ایک سوال آپ سے کرنا چاہتی ہوںکہ میرے سسرال والوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا ، کیا وہ ٹھیک ہے؟ آج تک کتنی بہوﺅں کو زندہ جلا کر مار دیا گیا ۔ کیا کبھی کسی کو انصاف ملا ہے؟ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب کسی کی بیٹی آرام کرے تو وہ بیمار ہے اور اسی گھر میں جب کبھی بہو بیماری کی وجہ سے صاحبِ فراش ہوجائے تو وہ ڈرامے بازکہلاتی ہے ۔ اپنی بیٹی کوتو بار بارکہا جاتاہے کہ آرام کر لو اور اگر بہو آرام کرنے لگے تو اسے کام چور کا خطاب دیاجاتا ہے۔
میں آخر میں یہی کہوں گی کہ کوئی بھی ماں، باپ بیٹی کی پیدائش سے کبھی نہیں ڈرتے ،اگر انہیں کوئی خوف یا ڈر ہوتا ہے تو وہ اس کے نصیب کا ہوتا ہے ۔ اگر سب لوگ بہوﺅں کو اپنی بیٹیاں سمجھنے لگیں توکوئی گھر برباد نہ ہو، بچوں سے ان کی ماں کبھی دور نہ ہو، بچے کبھی یتیم نہ ہوں، بچوں کے سر پر ہمیشہ ماں کا سایہ رہے۔ جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن واپس اپنے رب کریم کے پاس لازمی جانا ہے اور اپنے کئے پر جواب دے ہونا ہے۔ 
یہاںمیں نے یہ جو لکھا ہے وہ میری برداشت سے بہت باہر ہے ۔جب مجھے پتہ چلا کہ شمائلہ کا انتقال ہو گیا ہے ، تو مجھ پر کیا گزری، اس کا اندازہ شاید آپ نہیں کر سکتے ۔ پیاری اور معصوم بیٹی کے لئے ایک نظم حاضر ہے:
بیٹیاں تو پھول کی مانند ہیں 
ان کو کانٹوں پر سلاتے تو نہیں 
خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہیں یہ
سو بُرا اِن کو بلاتے  تو  نہیں 
ان کو سینے سے لگا کر ہی رکھو
یوں تماشا سا بناتے تو نہیں 
بیٹیاں، اللہ کا انعام ہیں 
یوں زکیر اُن کو رلاتے تو نہیں
 

شیئر: