Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طلاق،زندگی کا گہن ،جبینِ نسواں کا کلنک

کاش ہم لڑ کیا ں سسرال کے آنگن کو بھی اپنا جا نیں
 تسنیم امجد۔ریا ض
اب پچھتاوے اور خون کے آ نسو بہانے کے سوا میرے پاس کچھ نہیں رہا تھا ۔ما یو سی چاروں طرف سے مجھے گھیرے ہو ئے تھی۔ کاش میں نے اپنے غرور و تکبر کی چادر کو اتار پھینکا ہو تا ۔ما ں کی بات ما ننے کی بجائے اپنے دل و دما غ سے سو چا ہو تا ۔شما ئیلہ کے سامنے اپنے بچپن سے لیکر اب تک کے حالات گھومنے لگے۔اکلوتی ہونے کے نا تے اس کی پرورش شا ہا نہ انداز میں ہو ئی ۔والد کا بز نس بھی خو ب تھا ۔تعلیم کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ اداروں کا انتخاب کیا گیا ۔ایک اشارے پر بڑی سے بڑی خواہش پو ری کی جاتی ۔وقت گز ر تے پتہ ہی نہ چلا اور میری ر خصتی کی تیا ر یا ں ہو نے لگیں۔
طارق ایک تعلیم یا فتہ اور سلجھا ہوا انسان تھا ۔اس کی خو بیا ں اسے آج یاد آ رہی تھیں ۔بس ایک ہی خامی مجھے ہر لمحہ کھٹکتی تھی۔وہ تھی، میراسسرال میں رہنا ۔ایک بہن اور ما ں باپ پر مشتمل یہ گھرانہ چھو ٹا ہی تو تھاجس کا مجھے احساس نہیں تھا ۔نند مجھ سے بات کرنے کو تر ستی تھی۔ میں کمرے سے نکلتی نہیں تھی ۔ طارق کی خوا ہش ہوتی تھی کہ ہم ناشتہ ایک ساتھ کریں لیکن میں کہہ دیتی کہ میرے کمرے میں بھیج دیں۔میںطا رق سے جھگڑ تی کہ تمہیں بھی میرے ساتھ کمرے میں آ کر نا شتہ کر ناچاہئے تھا ۔وہ کہتے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ، اپنے گھر میں یہی دیکھا کہ نا شتے پر ایک ساتھ ہو نا ضروری ہے ۔وا لدین کیا سو چیں گے ۔تم ان کے ساتھ گھل مل کر دیکھو تو سہی ،بہت محبت ملے گی لیکن میں بضد تھی کہ مجھے الگ گھر چا ہئے۔اپنے خوا بو ں کا گھر۔میں اس میں کسی اور کو نہیں دیکھنا چا ہتی ۔صرف میرا اور تمہارا گھر۔ مجھے میری ما ں کہتیں کہ بیٹی اسی طرح اَڑی رہو ،ایک دن تمہا ری جیت ہو گی ۔میرا رویہ طا رق کے ساتھ تلخ سے تلخ تر ہو تا گیا ۔مجھے وا لدین کی امارت پہ گھمنڈ تھا ۔ما ں کے پڑ ھا ئے سبق میرے دل کو لگتے ۔وہ مجھے سمجھا تیںکہ تیرے ابا کو میں نے اسی طر ح الگ کر لیا تھا ۔دیکھنا یہ بھی ایک دن تیرے پیروں میں گر کر معافی ما نگے گا ۔ساس سسر بھی خود اسے کہیں گے کہ اپنا گھر الگ بساﺅ۔عنقر یب تمہا ری جا ن چھو ٹ جائے گی ان سے لیکن.......
یہ کیا، یہاں تو سب کچھ ہی الٹ ہوگیا ۔ما ں کی پڑ ھا ئی ہوئی ساری پٹیا ںناکام ہو گئیں ۔ماں تم نے ہی تو کہا تھا کہ طلاق لینے کا ڈراوا دینا،سب ٹھیک ہو جائے گا ۔وہ ایک مر تبہ پھر چیخ اٹھی ۔باپ نے سنا تو بھا گا آ یا۔بیٹی کو تڑ پتے دیکھا تو سینے سے لگا لیا۔پھر فرش پر بکھرے کاغذوں پر نظر پڑی توانہیں جلدی سے اٹھا کرایک ہی نظر میں پڑھ ڈالے اور بولے،تو نو بت یہا ں تک پہنچ گئی مگرکیو ں، کیسے؟اس نے ماں کو آواز دی ۔مجھے کچھ بھی خبر نہیں۔وہ لڑکا ایسا تو نہیںتھا ۔ما ں چیخی آپ نے للوپنجو خا ندا ن میں بیٹی بیاہ دی ۔ارے جب وہ اسے الگ رکھنے کے قابل نہیںتھا تو شا دی کیو ں کی تھی ۔
تھو ڑی ہی دیر میں باپ کواصل صورتِ حال کا علم ہو گیا تو بو لا ، بیگم تم نے اپنا فا ر مو لا یہا ں لا گو کرنے کی کوشش کی ۔ارے ہم تو تین بھا ئی تھے اس لئے میں مان گیاکہ با قی 2 وا لدین کا خیال رکھنے والے ہیں۔یہ طلاق،زندگی کا گہن ،جبینِ نسواں کا کلنک ہے جس نے میری بیٹی کی زندگی بر باد کر دی۔میں نے سوچ سمجھ کر ایک ہیرے کا انتخاب کیا تھا ۔میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا ۔یہ کہہ کروہ جلدی سے با ہر جانے کے لئے مڑے تو شمائیلہ نے کہا کہ بابا،اس کا کو ئی قصور نہیں۔میں نے اسے مجبور کر دیا تھا ۔سو چا تھا یہ دھمکی کا ر گر ثابت ہو جا ئے گی لیکن میں اجڑ گئی ۔با با طا رق کا کو ئی قصور نہیں ۔
باپ نے سر پکڑ لیا اوراپنے قدم روک کر بولے کہ بیٹی تم نے مجھ سے اپنی فر مائش کا ذ کر تو کیا ہو تا ۔کیا یہ خوا ہشیں ہی سب کچھ ہو تی ہیں ۔انسانو ں کی کو ئی قدر نہیں۔ارے بیٹیا ں تو اپنا مقدر خود بناتی ہیں ۔ان کا اصل ٹھکانہ تو سسرال ہو تا ہے ۔شما ئیلہ باپ کی گو د میں سر رکھ کر پھو ٹ پھوٹ کر رو نے لگی ۔اب پچھتاوے کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔باپ لڑ کھڑاتے قدمو ں سے کمرے سے نکل گئے۔ ماں نے بھی کمرے سے جانے میںہی عا فیت جا نی ۔
شمائیلہ کو طا رق کی محبت شدت سے یاد آنے لگی ۔وہ بہت اچھا تھا ۔میر ی زیا دتی تھی۔وہ میری ہر بات سنتا تھا ۔کاش میں ما ں کو اپنے معا ملات نہ بتا تی ۔کاش میں اسے بتا سکو ں۔واقعی ان کہی کی الگ اذیت ہے اور کہی بھی کسی عذاب سے کم نہیں:
ہچکیا ں لیتے ہو ئے دل کی رگیں ٹو ٹ گئیں
تیری یا دو ں نے عجب قہر مچا رکھا ہے 
اس نے کہا تھا کہ میں والدین کو کسی اذیت میں مبتلا نہیں کر سکتا ۔انہوں نے جس محنت و شفقت سے میر ی پر ورش کی ہے،میں اسے ایک قرض سمجھتا ہو ں۔مجھے اسے کسی نہ کسی حد تک ادا کر نے دو، ویسے تو یہ وہ قرض ہے جو کو ئی اولاد ادا نہیں کر سکتی ۔آپ بھی میرا ساتھ دیں تو میرے لئے آ سا نیا ں ہو جا ئیں گی ۔آپ کو اپنی زندگی کے آرام و عیش نہیں بھو لتے۔کاش، میں آپ کے لئے کچھ کر سکتا۔بند کمرے کی ہماری چخ چخ سے والدین بہت دکھی ہیں ۔مجھے کہہ چکے ہیں کہ بیٹا اس کی خو شی کا احترام کرولیکن میں یہ خو شی بھلا کیسے پو ری کرتا ۔کیسے والدین کو اکیلا چھوڑ کراپنا گھر بسا لیتا ۔اب آپ خوش ہو جا ئیں ۔میںآپ کو آپ کی آ زادی اور خو شیا ں لو ٹا تا ہو ں۔
شمائیلہ نے طلاق کے کا غذ اٹھا کر تکیے کے نیچے رکھ لئے اورچیختے ہو ئے بو لی ان کی یہی جگہ رہے گی ہمیشہ، اماں اب میں آپ کی بات نہیں ما نوں گی ۔آپ نے مجھے محبت کا سبق کبھی نہیں پڑ ھا یا ۔میں نے طارق کو غلام سمجھا ۔کاش میں ایسا نہ کرتی۔کاش ہم لڑ کیا ں سسرال کے آنگن کو بھی اپنا جا نیں۔جب ہمارے لئے بابل کا گھر پرایاہی ہو تا ہے ، یہی ہمارا مقدر ہے تو پھر کس مان پرہم سسرال کو نہیں اپناتیں ۔اپنا آ شیانہ ہم خود جلا ڈالتی ہیں ۔شمائیلہ کے پاس اب سوائے پچھتا وے کے کچھ نہیں بچا تھا ۔
آج اس بات کو10 سال بیت گئے ۔اس نے دوبارہ آنے والی ہر پرو پو زل کو رد کر دیا۔کاش اسے بھی علم ہو جائے کہ:
شہرِ دل کو اجا ڑ کر مجھ کو 
صرف تنہا ئی کا عذاب ملا
 

شیئر: