Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائنسی ریسرچ کے حوالے سے سعودی اخبارکا کا لم

اخبار المدینہ میں بدھ کو شائع ہونے والا کالم جو سائنسی ریسر چ نظرانداز کئے جانے کے حوالے سے پیشِ قارئین ہے۔
جہالت کا بل زیادہ بڑا ہے
محمد عمر العامودی۔ المدینہ
ایک عرصہ قبل ٹی وی سیمینار میں ناسا کے نامور سائنسدان ڈاکٹر فارو ق الباز نے سائنسی ریسرچ نظرانداز کرنے پر عرب ممالک کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سائنسی ریسرچ نظرانداز کرنے کی ہی وجہ سے عرب ممالک ترقی کے کارواں کے آخری حصے میں کھڑے ہوئے ہیں اور تیز رفتار ترقی کی ٹرین کی ہمرکابی سے عاجز ہیں۔ 
ڈاکٹر فاروق الباز 15برس سے زیادہ عرصے سے یہ انتباہ دہرا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے 15برس کے دوران بھی وہ یہ انتباہ اسی انداز میں دہراتے رہیں گے اور انکا انتباہ صدا بصحرا ثابت ہوگا۔
2002ءکے دوران اقوام متحدہ نے عربوں کے انسانی فروغ سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں انتہائی معنیٰ خیز باتیں تحریر کی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ : 
تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی لاگت بھاری ہوگی تاہم جہالت کو جاری رکھنے کی لاگت لامحدود ہوگی۔
چیلنج کا دائرہ نالج میں کمی تک محدود نہیں بلکہ نالج رکھنے والوں کی تعداد میں کمی اس سے بڑا چیلنج ہے۔
نالج میں خلا آمدنی میں خلا سے زیادہ پُر خطر ہے۔ نالج کا خلا ہی نئی دنیا میں اقوام و ممالک کے مستقبل کی جہت متعین کرنے والی کسوٹی ہے۔
تعلیم کو فروغ دینے کیلئے نئے انداز کے اساتذہ کی تیاری لازمی ہے۔ اساتذہ کو مسلسل او رمناسب تربیت دیتے رہنا ضروری ہے۔
حقیقی نالج ہی بنی نوع انساں کو انتہائی پیچیدہ اور تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا سے نمٹنے کی اہلیت دیتی ہے۔
میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا چاہوں گا کہ ”اقوام متحدہ نے مذکورہ سفارشات 15برس قبل پیش کی تھیں۔ آج کی تاریخ تک عرب قوم نے ان سفارشات میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد کا اعزاز حاصل نہیں کیا۔
بلاشبہ ہمارے ممالک تعلیم پر جو کچھ خرچ کررہے ہیں وہ برباد ہورہاہے۔
عرب دنیا میں تعلیم کی اصلاح کے عمل کو وزارتوں پر چھوڑنا صحیح نہیں۔ یہ کام ملکی و بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل قومی مجالس قائمہ کا ہے۔ وہی یہ کام بہتر اور موزوں شکل میں انجام دے سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: