انسانوں کے گرد تیسرا دائرہ مادی دنیا سے ماوری ہے، یہ عقل انسانی کےلئے غیب ہے،یہاں پرواز کرنے سے عقل انسانی کے پر جلتے ہیں
پروفیسر سید محمد سلیمؒ
اسلام وہ دین ہے جس نے نوعِ بشر کو شرف انسانیت سے ہمکنار کیا ۔ ساری مذہبی کتابوں میں قرآن مجید ہی وہ کتاب ہے جس نے انسان کے” خلیفة اللہ“ ہونے کا اعلان کیا ہے ۔خلیفہ ہونے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ زمین پر انسان خود مختار اور آزادہے۔ساری کائنات میں جامد، غیر ذی روح اور غیر عقل مخلوقات سے بھری پڑی ہے، فرشتے بھی حکم کے پابند اور غلام ہیں۔ کائنات میں صرف انسان ہی وہ واحد ہستی ہے جو آزاد اور خود مختار ہے۔ انسان کے خلیفہ ہونے کا اعلان سن کر فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ خود مختار ہستی ضروردنیا میں فتنہ وفساد پھیلائے گی، ضرور خون خرابہ کرےگی۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم اور عقل کی نعمت سے نوازا
اور اللہ نے آدم کو تمام نام سکھلادیئے۔ (البقرہ31)۔
اسماء سے مراد تصورات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت آدم میں تصور سازی یعنی انتزاع خصائص محسوسات کی صفت ودیعت کردی ہے۔تخیل ، فکر، تدبر اور تعقل سب درحقیقت تصور سازی کے مراتبِ عالیہ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وفہم کی دولت سے مالا مال کردیا۔ فرشتوں کے استفسار کے جواب میں عقل کی بخشش کا مطلب یہ ہوا کہ خدشے کا دفع عقل کے ذریعہ ہوجائےگا۔ عقل انسان کی بہترین رفیق ہے۔ مادی اشیاءکو سمجھنے اور پھر ان کو استعمال کرنے میں عقل نے انسان کی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔ دنیا میں انسان کے گرد سب سے بڑا دائرہ مادی اشیاءکا پھیلا ہوا ہے۔ یہ طبیعیات کی دنیا ہے ۔ مادی دنیا کو سمجھنے کےلئے عقل بالکل کافی ہے۔ عقلِ انفرادی سے اگر کبھی غلطی سرزد ہوجائے تو عقلِ اجتماعی اس غلطی کی اصلاح کردیتی ہے۔ مادہ کو تحلیل کرنے ، اس کے خواص معلوم کرنے، اس کو پرکھنے، جانچنے اور استعمال کرنے میں عقلِ انسان کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ صدیوں سے عقل کی کاوش جاری ہے جسکے نتیجے میں مادی دنیا سے متعلق جمع کردہ ایک عظیم الشان ذخیرہ آج انسان کے پاس جمع ہوگیاہے۔اس ذخیرے کو استعمال کرنے سے انسان نے حیران کن ایجادات اور اختراعات کرڈالی ہیں۔ اس کی وجہ سے آج انسان ہوا میں اڑرہا ہے، پانی میں تیر رہا ہے اور پہاڑوں کا چکر چیر رہا ہے۔
دنیا میں انسان کے گرد دوسرا بڑا دائرہ خود انسان کا ہے۔ یہ دنیائے انسانیت ہے، انسان غیر ذی روح اور غیر ذی عقل مادہ نہیں۔ انسان عقل ، شعور اور ارادہ کی دولت سے مالا مال ہے اس لئے انسانوں کا تجزیہ کرنا اور تحلیل کرنا عقل کےلئے انتہائی دشوار کام ہے۔ پھر ذی شعور اور بااختیار ہونے کے سبب کوئی بھی دو انسان اس طرح یکساں نہیں جس طرح دوپتھر یکساں ہوتے ہیں اس لئے عالم انسانیت میں عمرانی ، تمدنی، اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں میں عقل کی کار گزاری کی تحسین کرتے ہوئے بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عالم انسانیت میں عقل کی کدووکاوش کے نتائج اتنے صحیح اور یقینی نہیں ہوتے جتنے مادی دنیا سے متعلق یقینی ہوتے ہیں۔ یہاں عقل کی تنقیص مقصود نہیں بلکہ اس کی محدودیت اور نارسائی کا تذکرہ کرنا مقصود ہے
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کے شب تاریک سحر کر نہ سکا
انسانوں کے گرد تیسرا دائرہ مادی دنیا سے ماوری اور عالم انسانیت سے ماوری ہے،اس کا تعلق حقیقتِ کبریٰ سے ہے۔ حقیقت کبریٰ کے علم کے بغیر نہ عالم طبیعیات کی حقیقت کھلتی ہے اور نہ عالم انسانیت کی حقیقت واضح ہوتی ہے مگر حقیقتِ کبریٰ کا دائرہ عقلِ انسانی کےلئے غیب ہی غیب ہے۔ فطرت ِانسانی کو غیب جاننے کا بے حد اشتیاق ہے مگر یہاں پرواز کرنے سے عقل ِانسانی کے پر جلتے ہیں۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بلاشبہ عقل رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہے مگر بعض دائروں میں اس کی رہنمائی ناکافی ہے اسلئے فرشتوں کے استفسار کا یہ شافی ووافی جواب نہ ہوا۔ اس موقع پر عقل کی نارسائی اور محدودیت کا نقص دور کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے انعام سے نوازا، فرمایا گیا
ہم نے کہا: اب تم سب یہاں سے اتر جاء! پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کےلئے خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔( البقرہ38)۔
پھر اس کے بعد فرمایا
اور جو کوئی اس کو قبول کرنے سے انکار کردیںگے اورہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ تو آگ میں جلنے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ( البقرہ39)۔
گویا اللہ تعالیٰ نے عقل کا نقص ہدایتِ الہٰی سے دور کردیا۔ یہ ہدایت وہ اپنے رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ دنیا میں انسانوں کو بھیجتارہےگا۔ اب جو لوگ اس ہدایت کی پیروی میں زندگی بسرکریں گے ، وہ امن وچین کی زندگی گزاریں گے ، وہ خلافت کے فرائض پورے کریں گے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے ہر ملک میں اور ہر قوم میں ہدایت دینے والے نبی اور رسول بھیجے
تم خبردار کرنے والے ہو اور ہر قوم کےلئے ایک ہادی ہے۔(رعد7)۔
اللہ تعالیٰ کی ہدایت دواجزا پر مبنی ہوتی ہے۔کتابِ ہدایت اور عملی انطباق بتانے والی سنت ِ رسول ۔ قدیم زمانے سے اللہ تعالیٰ مختلف قوموں میں کتاب اور سول دونوں بھیجتارہا۔ آخری کتابِ ہدایت قرآن مجید ہے اور آخری مستند نمونہ¿ ہدایت حضرت محمد کی حیات طیبہ ہے۔ آج ہدایت الہٰی صرف قرآن مجید اور سنت رسولسے مل سکتی ہے۔یہ ہدایت انسانی ذہن کے ساخت وپرداخت میں نہیں۔یہ ہدایت علیم وخبیر خدائے بزرگ وبرتر نے براہ راست حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ رسول اکرم پر نازل فرمائی۔ یہ ہدایت ان تمام ضروری علوم ومعارف کا ذخیرہ ہے جسکی نوعِ انسانی کو ضرورت ہے اور جو عقل انسانی کی دسترس سے بالا ہے۔ اس ہدایت کو آئے ہوئے 14صدیاں گزرچکی ہیں۔ اس ہدایت نے عالم انسانیت کو ہزارہا انعامات دیئے ہیں۔ عالم انسانیت اس ہدایت سے مختلف طریقوں سے مستفید اور متمتع ہوتی رہی ہے،رحمت عالم کا فیضان عام رہا ہے۔ وہ اقوام جو آپ پر ایمان لائیں وہ بھی اور وہ اقوام جو آپ پر ایمان نہیں لائیں وہ بھی، دونوں رحمت عالم اور ہادی¿ اعظم کی لائی ہوئی تعلیمات سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ اس سرچشمہ¿ ہدایت سے ان 14صدیوں میں جو فیض جاری ہواہے اس کا ہم مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا تو بڑا دقت اور محنت طلب کام ہے۔ ہم تو صرف چند عنوانات کے تحت اسلام کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
(مکمل مضمون روشنی 4نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)