Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خمینی کا نظام اور مرشد کا سہارا

مشاری الزائدی ۔ الشرق الاوسط
بعض لوگ خصوصاً ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر فریفتہ یورپی اس وہم میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ خمینی کانظام ان عوامی مظاہروں کے طوفان سے بچ گیا جس نے خمینی نظام کے متوالوں اور عراق ، شام ، لبنان اور یمن میں اس کے پیرو کاروں کو سراسیمہ کردیا تھا۔
دراصل خمینی کے نظام کے ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی خرابی پائی جاتی ہے۔ خمینی نظام کا عوام الناس سے کوئی رابطہ نہیں۔ عوام میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ مظاہروں میں نہ سعودیوں کی کسی سازش کا عمل دخل ہے اور نہ ہی امریکیوں کا کوئی ہاتھ ہے۔ ایرانی میڈیا اس حوالے سے ناحق مظاہروں کا الزام سعودیوں اور امریکیوں کے سر دھر رہا ہے۔ مظاہروں کے ذمہ دار بنیادی طور پر ایرانی عہدیدار ہیں۔ یہ دعویٰ میرا نہیں بلکہ یہ ایرانی صدر حسن روحانی کا فرمودہ ہے۔ انہوں نے مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای کی اس گنگناہٹ کے جواب میں یہ بات اس خدشے سے کہی تھی کہ کہیں پاسداران انقلاب غصیلے نوجوانوں کی بیخ کنی نہ کرنے لگیں۔
حس روحانی تنہا نہیں جو مظاہروںکا ذمہ دار ایرانی عہدیداروں کو ٹھہرا رہے ہوں۔ یہ بات تو خمینی انقلاب کا آتش فشاں بھڑکانے والوں اور خمینی نظام کے خدمت گاروں نے بھی کہی ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے 2009 ءکے دوران سبز انقلاب تحریک کی قیادت کی تھی۔ موسوی اور کروبی وغیرہ یہ باتیں کہہ چکے ہیں حالانکہ وہ خمینی نظام کے فرزند مانے جاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انقلاب خود خمینی نظام کے فرزندوں نے برپا کیا تھا مگر باراک اوباما کی سیاسی عیاری کے باعث پاسداران انقلاب کی بیخ کنی کے بھنو رمیں پھنس کر رہ گیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اوباما نے ایرانی عہدیداروں کے ساتھ سودے بازی کو پکا کرنے کیلئے خمینی نظام کے متولیوں کو رشوت دینے کیلئے انقلابیوں کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر اور سبز انقلاب تحریک کے رہنما مہدی کروبی نے جو 7برس سے نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں مرشد اعلیٰ کے نام واضح الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ بوئی ہوئی فصل کی کاشت ہے۔ یہ پیغام اعتماد ملی پارٹی کے ماتحت ”سحام نیوز“ ویب سائٹ نے جاری کیا ہے۔ کروبی نے خامنہ ای کے خلاف سخت لب ولہجہ استعمال کیا ہے اور انہیں ایرانی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ایرانی نظام کا دھڑن تختہ رومانیہ کے چاﺅ شسکوکی طرح ہوگا لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ رفتہ رفتہ اس نظام کا سقوط یقینی ہے خواہ مرشد اعلیٰ پر کتنا بھی تکیہ کیوںنہ کرلیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: