Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرم مکی کے اغوات کہاں ہیں؟

احمد صالح حلبی ۔ مکہ
جب بھی نماز یا طواف کیلئے مسجد الحرام جاتا ہوں مجھے وہ لوگ یاد آتے ہیں جو ماضی قریب تک مطاف یا کنکریوں کے صحن میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض امام کے ہمراہ آتے جاتے ، سفید ثوب پہنتے، سفید عمامہ زیب تن کرتے ۔ بعض منفرد قسم کا سبز عمامہ استعمال کیا کرتے تھے۔ انہیں ”اغوات الحرم“ کہا جاتا تھا۔
مجھے یہ لوگ یاد آتے ہیں۔ جب بھی انکی یاد آتی ہے تو گزشتہ برسوں کی ان کی تاریخ بھی ذہن کی اسکرین پر دوڑنے لگتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بہت سارے نوجوان اغوات الحرم کی تاریخ سے یکسر ناواقف ہیں۔
”آغا“ کا لفظ عربی نہیں عجمی ہے۔ یہ ترکی، کردی اور فارسی زبانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کرد حضرات اپنے بزرگوں اور شیوخ کیلئے آغا کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ ترک حضرات سربراہ اور آقا کیلئے لفظ آغا بولتے ہیں۔ فارسی زبان میں خاندان کے سربراہ کو آغا کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لفظ” آغا “زمیندار ، سردار یا شیخ یا گھر کے خدمت گاروں کے امیر کیلئے بولا جاتا تھا۔ عسکری عہدوں پر فائز اکثر خدمت گاروں کو بھی آغا کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لفظ آغا قصر شاہی میں خسی خدام کیلئے بولا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں یہ لفظ ”خدام الحرمین الشریفین “ کےلئے مخصوص تھا۔ 
بہت ساری تاریخی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ اغوات کی تاریخ امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہ پہلے امیر تھے جنہوں نے خانہ کعبہ کی خدمت کیلئے غلام تعینات کئے۔ یزید بن معاویہ پہلے مسلم حکمراں ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کی خدمت کیلئے خسی خدام مقرر کئے۔ رفعت باشا کا کہناہے کہ مسجد الحرام میں اغوات کی تقرری کرنے والے پہلے مسلم حکمراں ابو جعفر المنصور ہیں۔ جہاں تک مسجد نبوی شریف کے اغوات کا تعلق ہے تو انکی تاریخ صلاح الدین بن ایوب کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ یہ پہلے حکمراں ہیں جنہوں نے مسجد نبوی شریف کیلئے خسی خدام متعین کئے۔
مسجد نبوی شریف کے شیخ الاغوات شیخ سعید بن آدم بن عمر آغا نے 2011ءمیں شائع ہونے والے اپنے اخباری انٹرویو میں اس بات کی تردید یہ کہہ کر کی کہ مشہور یہی ہے کہ اغوات کو ان کے والدین خسی کرکے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حرمین شریفین کی خدمت کیلئے بھیجا کرتے تھے۔ یہ دعویٰ درست نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حبشہ پر اٹلی کی لشکر کشی کے موقع پر بچوں کو خسی کیا گیا تھا۔ یہ حرکت اہل حبشہ نے نسل کشی کی غرض سے کی تھی۔
الیمامہ مجلے نے اپنے ایک شمارے میں اغوات کے امور کے سابق نگراں سالم فرید یمنی کے ساتھ انٹرویو شائع کیا ہے ۔ یہ انٹرویو ہمارے رفیقِ کار توفیق نصر اللہ نے لیا تھا۔ سالم فرید نے اپنے انٹرویو میں اغوات کی زندگی کے متعدد خفیہ پہلوﺅں کو سامنے لاتے ہوئے واضح کیا کہ اغوات مالدار ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ باپ بننے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں۔
سالم فرید یمنی نے یہ بھی بتایا کہ عراق، مراکش اور یمن میں اغوات کیلئے جائدادیں وقف ہیں۔ مکہ مکرمہ ، طائف، جدہ اور الاحساءمقامات پر بھی اغوات کیلئے اوقاف محفوظ ہیں۔ مکہ مکرمہ کے اغوات کیلئے اوقاف میری نگرانی میں ہے جبکہ مدینہ منورہ کے اغوات کیلئے خود شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موقوفہ جائدادیں ہیں۔
اغوات کا باقاعدہ نظام ہے۔ سالم فرید یمنی بتاتے ہیں کہ دفعہ 42میں تحریر ہے کہ ”اغوات کا سربراہ اور انکا گروہ اپنے داخلی نظام کے حوالے سے خودمختار امت ہیں۔ انہیں یہ انتظامی خود مختاری شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے” دفعہ 40“ میں دے رکھی ہے۔ شاہ سعود رحمتہ اللہ علیہ نے 4ربیع الاول 1374ھ میں ایوان شاہی سے فرمان جاری کرکے بانی مملکت کے عطا کردہ اختیارات کی تائید کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اب جبکہ اغوات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ کیا کوئی شخص ایسا ہے جو انکی تاریخ کا ریکارڈ تیار کرنے کی کوشش کرے۔ میری آرزو ہے کہ اگر اغوات جسمانی طور پر نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں تو تاریخی اوراق سے غائب نہ ہوں۔ ان لوگوں نے حرمین شریفین کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں تج رکھی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: