Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاف اس طرح ہم کلام ہوئے!

 مشاری الذایدی - - الشرق الاوسط
    الشرق الاوسط اخبار میں کام کرنے والے رفیق کار ناصر الحقبانی نے 8ویں اور 9ویں عشروں کے دوران افغان جہاد کی نمایاں ترین شخصیت عبدرب الرسول سیاف کے ساتھ  انٹرویو شائع کرکے مجھ سمیت نہ جانے کتنے لوگوں کو حیرت زدہ کردیاؒ تھا۔ ایسا لگا کہ سیاف تاریخ کے گودام سے باہر آگئے ہیں۔داڑھی اور سر کے بالوں کی سفیدی کے سوا کوئی اور چیز ان میں تبدیل نہیں ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوہی جاتے ہیں۔ یہی زمانے کی ریت ہے۔
     سیاف نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرے کئے اور اپنے افکار  و خیالات پیش کئے۔ یہ فی الوقت میری گفتگو کا موضوع نہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان کی تاریخ کے موثر ترین دور کی شخصیات اور امور و مسائل پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے عصر حاضرتک سیاست اور ثقافت پر اثر اندازہونے والے اس دور کا جو ذکر کیا وہی توجہ طلب ہے۔
    سیاف نے اسامہ بن لادن سے اپنے تعلق ، ان سے اپنی ملاقات اور عبداللہ عزام سے میل ملاپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم لوگ افغانستان سے باہر ایک تقریب میں شریک تھے۔ اس موقع پر وہاں عبداللہ عزام بھی تھے۔ وہیں اسامہ بن لادن اور عبداللہ عزام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے2 یا3 برس بعد میں افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا گیا ہوا تھا، وہاں ہم اسامہ بن لادن سے ملے۔ انکے ہمراہ 7افراد موجود تھے۔ مجھے ان کے نام نہیں معلوم ۔ یہ لوگ ہمارے ساتھ کئی ماہ رہے۔ پھر چلے گئے ، دوبارہ واپس آگئے۔ اسامہ بن لادن کے ہمراہ انکا کمسن بیٹا عبداللہ بھی تھا۔ اسکی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ وہ ہمارے ہمراہ خندق میں وقت گزارتا رہتا تھا۔ جہاں تک اسامہ بن لادن کے خاندان کے دیگر افراد کا تعلق ہے تو اسامہ اس وقت تک انہیں وہاں نہیںلائے تھے ۔ اس زمانے میں حمزہ کا نام سنا کرتا تھا لیکن میں نے اسے دیکھا نہیں تھا۔
    جہاں تک دنیا بھر میں جہادیوںکی علامت عبداللہ عزام  کا تعلق ہے جو پشاور میں قتل  کئے گئے اور سیاف کے جگری دوست تھے۔ انکی بابت سیاف کہتے ہیں کہ ’’میرے پاس عبداللہ عزام کے قتل سمیت افغان جہاد کے اسرار کا ایک خزانہ ہے۔ میرے پاس بہت سارے چشم کشا حقائق اور شواہد محفوظ ہیں۔ وقت آنے پر ان سے پردہ اٹھائونگا۔ نئے فتنوں سے بچنے کیلئے طشت ازبام کرنے سے گریز کررہا ہوں‘‘۔
    سیاف نے عبداللہ عزام کے قتل سے قبل پس دیوار پیش آنے والے بعض واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’خود عبداللہ عزام کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں  اپنی ہلاکت کا خدشہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے اپنے قتل سے 2ماہ قبل مجھ سے اس حوالے سے اپنے دل کی بات کہی تھی۔ میں نے انہیں محفوظ محاذ پر بھیج دیا تھا تاکہ وہ درپردہ واردات کرنے والوں کی دسترس سے دور رہیں تاہم جب وہ پشاور آئے تو لوگوں نے انہیں ہلاک کر ڈالا۔
    سیاف نے  تاجک جہادیوں کی علامت احمد شاہ مسعود کے قتل سے متعلق نئی تفصیلات الشرق الاوسط کو بتائیں ۔ انہوں نے کہا کہ مغربِ عربی سے صحافیوں کی شکل میں القاعدہ کے لوگ انہیں قتل کرنے کیلئے پہنچے تھے۔
    افغانستان میں جہاد کی تاریخ اپنے آپ میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت ساری جماعتوں ، پالیسیوں اور فکر انگیز باتوں کا مخزن اورسرچشمہ یہی افغان جہاد ہے۔ اُس دور کی تاریخ بنانے والے بہت سارے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ ان میں گلبدین حکمت یار بھی شامل ہیں۔ عربوں میں بھی اس طرح کی شخصیات بقید حیات ہیں۔
    کاش ہم   اُس دور کی تاریخ کا زبانی ریکارڈ محفوظ کرنے پر توجہ دیں۔ اُس دور کی سمعی و بصری دستاویزات جمع کریں۔ عبداللہ عزام کے ماتحت شائع ہونے والے مجلے الجہاد کے شماروں کا ریکارڈ  محفوظ کریں۔
    گزشتہ صدی کے 8ویں اور نویں عشروں کے دوران افغانستان اور پاکستان کے بطن سے بہت ساری جماعتو ں ، تنظیموں اور شخصیات نے جنم لیا۔ القاعدہ ہو یا الزرقاوی یا المقدسی یا المقرن یا الظواہری اور رفاعی  طٰہٰ ہوں یا دیگر  یہ سب  اسی دور کی پیداوار ہیں۔ میں عبد الرب رسول سیاف  کے ساتھ اپنے رفیق کار ناصر الحقبانی کے انٹرویو کو مذکورہ دور کی تاریخ محفوظ کرنے کی ایک خوبصورت کوشش سمجھتا ہوں۔
مزید پڑھیں:- - - - - -کریڈٹ کارڈ سے 2لاکھ ریال تک کی شاپنگ کی جاسکے گی، ساما

شیئر: