Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارا دورنہ سہی مگر اکثر دل پتھر کے ہو چکے

تسنیم امجد ۔ریا ض
وطنِ عز یز میں غر بت اور مہنگائی ایسے مسا ئل ہیں جنہو ں نے جینا مشکل کر رکھا ہے اور عوام کی سو جھ بو جھ پر تا لے پڑ چکے ہیں۔ زندگی کا لمحہ لمحہ بھا ری محسوس ہو رہا ہے ۔حا لاتِ حا ضرہ ہی ایسے ہیں کہ خطرہ کیا ،موت کو بھی گلے لگا نے سے گریز نہیں کیا جا تا ۔اللہ نہ کرے اگر کوئی حا د ثہ ہوجائے تو ایسی صورت میں شکا یات کا دفتر کھل جا تا ہے ۔انتظامی لا پر وائی وا ضح ہے لیکن زندگی کی حفا ظت تو خود پر لا زم ہے۔ایسی بھی کیا جلدی اور کمانے کی فکر کہ سو جھ بو جھ بھی ختم ہو گئی۔
حکو مت اور عوام کی مثال گا ڑی کے دو پہیوں کی سی ہے ۔دو نوں پر برابر کی ذمہ دا ر یا ں ہیں، یہ دونوں ذمہ داریاں ادا کریں تب ہی خو شحالی ممکن ہو سکتی ہے ۔مسا ئل کی ذمہ دار اگر حکو مت ہے تو عوام بھی برابر کے شریک ہیں۔ہمارے ہا ںقناعت بھی ختم ہو چکی ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر، یعنی وہ لوگ جو اعلیٰ تعلیم حا صل کرنے کے بعد ا علیٰ عہدو ں پر فا ئز ہیں اور اپنی محنت کے بل بو تے پر بہتر زندگی گزار رہے ہیں، یہ لوگ ڈپریشن کا شکار ہو کر حقا ئق سے نظر یں چرا تے ہیں ۔وہ اپنے اور ان میں کو ئی فرق محسوس کر نے سے نا بلد ہیں ۔
ما ہرینِ سما جیات کا کہنا ہے کہ وطن میں زندگی کے اکثرشعبو ں میں کنڈا زنی عام ہو چکی ہے یعنی دھوکہ دہی، جھو ٹ اورچالبازی پر بھرو سہ رہ گیا ہے ۔ان کے نز دیک یہ ایک سوچ ،کیفیت اور رحجا ن ہے ۔ہر شعبے میں عام وتیرہ یہی ہو چکا ہے کہ فرا ئض سے بغاوت ہی مسائل کا حل ہے ۔
تعلیم کا شعبہ جو کبھی قا بلِ تقلید تھا ،اب کاروبار بن چکا ہے ۔اسا تذہ خواہ کسی بھی درجے کے ہوں، اپنی ذمہ داریا ں والدین کے سر ڈال رہے ہیں ۔ٹیو شنز پر زور ہے ۔ہر شے کا معیار پیسہ ہی بن چکا ہے ۔ما ضی قریب میں والدین چھپ چھپا کر ٹیو شن پڑ ھواتے تھے کیونکہ یہ ان کے لئے ایک طعنہ ہوتی تھی مگر آج باعث فخر ہے ۔
محکمہ صحت بھی مریضو ں کی زندگیو ں سے کھیل رہا ہے ۔ڈا کٹر پرا ئیویٹ پریکٹس چمکا نے کے لئے اسپتا لو ں میںمناسب علاج سے گریز کر تے ہیں ۔کبھی یہ پیشہ دکھی انسا نیت کی خد مت کے نام سے پہچا نا جا تا تھا ۔الیکٹرانک میڈیا بھی لینے دینے کی پا لیسی اپنا ئے ہو ئے ہے ۔ایک دن کا” ٹاک شو“کسی پر تنقید کر رہا ہوتا ہے تو دوسرے دن اس کی کا یا ہی پلٹی ہو تی ہے ۔سیاسی ا ثر و رسوخ اور اقربا پروری 
کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے ۔محکمانہ چیک اینڈ بیلنس یعنی روک و توا زن کی کمی ہے ۔ہم نے پہلی دنیا کی تقلید میں جمہو ریت تو را ئج کر لی لیکن نہ توکرتا دھرتا ﺅ ں نے اور نہ ہی عوام نے اس نظام کو سمجھنے کی کو شش نہیں کی ۔شرائط دو نو ں کے لئے ہیں لیکن ان کا اہتمام کسی نے نہیں کیا ۔عوام کی بنیا دی ضرورت پیٹ کی آ گ بجھانا ہے ۔اس کے بغیر تو وہ یہی کہیں گے کہ سب کچھ جا ئے بھا ڑ میں ،پہلے ہمیں کھا نا دو ۔
گز شتہ دنو ں ہمسائے کا مالی مٹھا ئی کا ڈبہ اٹھائے خو شی خو شی آیا۔بولا ہمارے علاقے کا فلا ں فلا ں امیدوار الیکشن جیت گیا ہے۔ ہماری پو ری برا دری نے اس کو وو ٹ ڈالا تھا ۔ہم نے گلاب جامن منہ میں رکھتے ہو ئے کہا ،کیا نام ہے تمہارے ممبر کا ؟ اس نے جو نام بتایا تو دل چا ہا کہ گلاب جامن منہ سے نکال کر پھینک دوں۔وہ شخص علاقے کا غنڈہ قسم کا انسا ن تھا ۔پیسے والا بھی نہیںتھا بلکہ زمیندار اس سے کام نکلوانے کے لئے اس کو رقم دیا کرتا تھا ۔مالی نے کہا کہ اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارے دو نو ں چھو ٹے بھا ئیو ں کو شہر میں نو کری دلا دوں گا ۔اس طرح میری ذمہ داریا ں بٹ جا ئیں گی اور میں پھر شا دی کرلوں گا ۔صاب جی! ایک اور بات بتا ﺅ ں ۔ذرا راز کی ہے ۔اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا کہ زمیندار نے اپنے سب وو ٹرو ں کے گھر چھ چھ ماہ کا را شن بھی ڈلوا دیاہے ۔بڑا دل والا ہے وہ جی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ طور طریقہ وطن سے غربت و جہالت کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ؟کیا کسی کو ملازمت دلانے سے ملک و قوم کی بہتری کا راستہ کھولا جا سکتا ہے، یقینا نہیں۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں وطن کی تعمیر و تر قی سے کو کو ئی سرو کار نہیں۔انہیں صرف اپنی ذات کا ہی خیال ہوتا ہے اور وہ بھی جو تیا ں اٹھا کر یعنی خو شا مد کر کے ۔ ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں ۔ہمارے ہا ں تمام تر واقفیت اور آگہی کے باوجود کوئی بھی مدنی شعور کے مطابق عمل کرنے کی کو شش نہیں کر تا ۔یو نیور سٹی گراﺅ نڈ میں بکھرے مونگ پھلی کے چھلکے دیکھ کر افسوس سے آنکھیں پھٹی رہ جا تی ہیں جبکہ جگہ جگہ ڈسٹ بن بھی موجود تھے ۔اسی طرح سا حلِ سمندر پر بھی لوگ کھا پی کر گندگی وہیں پھینک دیتے ہیں۔صبح سویرے اگر جانا ہو تو یہ سب دیکھ کر دل خون کے آ نسو رو تا ہے ۔پبلک با تھ رومز کا تو کچھ نہ پو چھئے۔ کس کس بے حسی کا رو نا رو ئیں۔ ہمیں ذاتی محا سبے کی اشد ضرورت ہے ۔اللہ کریم نے ہمیں عقل ،فکر اور شعور کی نعمتو ں سے نوا زا ہے ۔اشرف ا لمخلوقات ہونے کا شرف بھی ہمیں عطا ہوا ہے تاکہ دنیاوی زندگی ڈ ھنگ سے گزا رسکیں۔ذاتی مفادات کو با لا ئے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کے مفادات کو مدِ نظر رکھنا ہی انسا نیت ہے ۔بز ر گو ں کا کہنا ہے کہ ہما رے وقتو ں میں زندگیاں آسان تھیں۔اگر چہ زیا دہ وقت تو نہیں ہوا لیکن وہ دوربہت سنہرا محسوس ہوتا ہے ۔ماضی میں سپر پاورز نے ہمیں دھمکیاں دی تھیں کہ اگر ہم نے ان کی باتیں نہ مانیں تووہ ہمارے پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے تاہم حقیقت یہ ہے کہ آ ج ہم پتھر کے دور میں تو نہیں مگر ہمارے اکثر لوگوں کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔ہم ما ڈ رن دور کے با سی تو بن گئے لیکن ہماری زند گیو ں سے سکون اٹھ چکا ہے ۔اس کی وجہ ہم خود ہی ہیں ۔محبت وبھا ئی چارہ مفقودہو چکا ہے ۔آ پا دھا پی نے بھا ئی کو بھا ئی سے دور کر دیا ہے ۔اس طرح ہم مسائلستان کی دنیا میں پہنچ چکے ہیں ۔بد امنی اور بو ری بند لا شو ں نے ہمارے ضمیر سلا دیئے ہیں۔جب حرمتیں محفو ظ نہ رہ سکیں،مائیں اپنے جگر گوشے فروخت کرنے پر مجبور ہوجائیں تو امیدو ں کے چراغ بجھنے اور اندھیرا مقدر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آج کے دور کی ما ں کوبھی فرصت نہیں کہ وہ اولاد کی تر بیت کے لئے وقت دے، ایسے میں بھلا کس سے شکوہ کیا جا ئے ۔چند روز قبل ایک خاتون مو ٹر سائیکل پر اپنے بیٹے کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں۔وہ لڑکا بمشکل بارہ برس کا ہو گا ۔سبزی کے ٹھیلے پر رک کر وہ سبزی لینے لگیں تو ہمیں بھی مو قع مل گیا کہ ان سے بات کر لیں۔ہم نے پو چھا کہ پو لیس والا آپ کے بیٹے کو روک لے گا کیو نکہ یہ ابھی چھو ٹا ہے ۔اس کے پاس لا ئسنس بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر وہ خاتون بو لیں کہ گھر کے سارے کام یہی کرتا ہے ۔اسے بہت اچھی مو ٹر سا ئیکل چلانی آ تی ہے ۔ویسے پو لیس بھی اپنے ہاتھ میں ہے ۔ہم سو چنے لگے کہ نا فر ما نی کا سبق تو گھر میںہی پڑ ھا دیا جا تا ہے جو قا نون شکنی پر منتج ہو تا ہے ۔ہمارے ہا ں لائسنس کے اجراءکے قوا نین ضرور ہیں لیکن ان پر عمل در آ مدنہیں ہو تا ۔وا سطہ اور بیچ کا آ دمی سب آ سا نیا ں پیدا کر دیتا ہے ۔بڑ ھتی ہو ئی کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک آ ئے دن کسی نہ کسی آ فت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ریلوے کے محکمے کو کیا ہوش نہیں کہ کچھ سخت قسم کے قوانین اور سزائیں تجویز کرے تا کہ کسی کی بھی ہمت نہ ہو اپنی زندگی دا ﺅ پر لگانے کی ۔
مشہور مفکر ار سطو کا کہنا ہے کہ ” قا نون مکڑی کا وہ جا لا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھو ٹے ہی پھنستے ہیں ۔بڑے جانوراسے پھاڑ کر نکل جا تے ہیں ۔جس کی لا ٹھی اس کی بھینس ،کی بجا ئے قا نون کی حکومت ہو نی چا ہئے یعنی سب کے لئے یکسا ں قانون ۔کہتے ہیں کہ آزادی اور قا نون کا ایک دو سرے پر انحصار ہے ۔بے لگام آ زادی میں تر قی ممکن ہی نہیں ۔اجتماعی سوچ میں ہی ہماری بقا ہے ۔اگر ہم مل جل کر معا شرتی اصلاح کومد نظر رکھنا شروع کر دیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ کسی کو کسی سے شکا یت ہو اور اگر ڈھٹائی سے کام لیاجائے تو ذرا غور کیجئے ، انجام کیا ہو سکتا ہے:
سا ئیکل میں رات کو بتی جلا ﺅ ں کس لئے 
ناز اس قانون کا آ خر اٹھا ﺅ ں کس لئے 
ریل اپنی ہے تو آ خر کیو ں ٹکٹ لیتا پھروں
کو ئی تو سمجھائے مجھ کو یہ تکلف کیو ں کروں
کیو ں نہ رشوت لو ں کہ جب حاکم ہو ںمیں ،سرکار ہو ں
تھا نوی ہر گز نہیں ہو ں، اب میں تھا نیدار ہو ں
گھی میں چر بی کے ملانے کی ہے آ زادی مجھے
اب ڈرا سکتی نہیں ، گا ہک کی بر بادی مجھے
میں ستم گر ہو ں،ستم پیشہ ،ستم ایجاد ہو ں
مجھ کو یہ حق پہنچتے ہیں ،کیو نکہ میں آزاد ہو ں
یک بیک جب نیند سے چو نکا ،تو دیکھا یہ حقیر
اپنی آ زادی کی سب پا بند یو ں کا ہے اسیر
 

شیئر: