Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی شہری بیرون ملک سکونت کیوں اختیار کرتے ہیں؟

 محمد البلادی ۔ المدینہ
سعودی عرب سے باہر رہنے والے شہریوں کی صحیح اعداد وشمار ہمارے پاس نہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ایک معتدبہ تعداد مستقل طور پر دیگر ممالک میں رہائش پذیرہے۔ صحیح اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے اس ضمن میں محض اندازے اور تخمینے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔مجلس شوری ٰکے رکن کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ دیگر ممالک میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے سعودی شہریوں کی تعداد10لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں سے آدھی تعداد مصر میں رہائش پذیر ہے۔میرا اپنا خیال ہے کہ یہ تعداد مبالغے پر مبنی ہے سوائے اس کے ہم اس میں بیرون زیر تعلیم طلبہ اور سفارتی عملے کو بھی شامل کرلیں۔ اگرچہ صحیح تعداد کچھ بھی ہو تاہم ہمیں اس رجحان پر گہرائی سے سوچنا چاہئے جس میں حقیقتا اضافہ ہورہا ہے۔میرا خیال ہے کہ متعلقہ اداروں نے اس رجحان پر غور نہیں کیا نہ ہی کسی نے اس کے حقیقی اسباب کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔
جس طرح ہمیں بیرون ملک مستقل سکونت اختیار کرنے والے سعودیوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں اس کے اسباب کا بھی حقیقی معنوں میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس کے اسباب میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور لوگ دوسرے ممالک میں آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ کیا اس کے پیچھے بیوروکریسی ہے جس کی وجہ سے سعودیوں کو اپنے ملک میں تجارت اور کاروبار کرنے میں دشواری ہورہی ہے ۔ کیا یہاں لیبر کی دستیابی مشکل ہے یا پھر محض ماحول کی وجہ سے لوگ دیگر ممالک میں قیام کو پسند کر رہے ہیں۔شادی بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے ۔ آدمی کسی دیگر ملک سے تعلق رکھنے والی خاتون سے شادی کرلے اور وہاں کم اخراجات کی وجہ سے سکونت اختیار کرلے۔سعودیوں کی بیرون ملک مستقل سکونت کے کئی اسباب ہوسکتے ہیںتاہم یہ بات طے ہے کہ بڑی تعداد کا دیگر ممالک میں قیام ملازمت یا غربت کی وجہ سے نہیں ہوسکتا۔ایک آدمی کی آمدنی محدود ہے جس سے مملکت میں رہتے ہوئے اس کا گزارا نہیں ہوسکتا اس لئے وہ کسی پڑوسی ملک میں جاکر آباد ہوتا ہے کیونکہ اس کی آمدنی جب دوسرے ملک کی کرنسی میں تبدیل ہوتی ہے تو اتنی رقم دستیاب ہوتی ہے کہ وہ آرام سے مہینہ گزار سکے۔ یہ وجہ اس لئے نہیں ہوسکتی کیونکہ ریٹائرڈ افراد کو بھی جو پنشن مل رہی ہے وہ ان کے لئے یہاں رہنے کےلئے کافی سمجھتی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہر آدمی کو یہ اختیار اور حق ہے کہ وہ جہاں مناسب سمجھے سکونت اختیار کرے۔ یہ آدمی کی ذاتی پسند اور شخصی آزادی بھی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ جب کوئی شخص بیرون ملک رہائش اختیار کرے تو اس کے اس فیصلے کے منفی اثرات ملک کے معاشی اور معاشرتی ماحول پر نہ پڑتے ہوں۔ ہمارے ہاں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کچھ افراد نے بیرون ملک رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا پھر اس کے اس فیصلے کے نتائج معاشرے کو بھگتنے پڑ گئے۔یہی وجہ ہے کہ ملکی ماہرین سعودیوں کا بیرون ملک مستقل قیام کے بڑھتے ہوئے رجحان کا جائزہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
معیاری زندگی ہر معاشرے کی ضرورت ہے مگر اس کے باوجود دیگر ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ ذاتی پسند اور ناپسند سے وابستہ ہے ۔ ہمارے سامنے کئی امریکی اور یورپی شہریوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے ملک کی معیاری طرز زندگی اور معاشرت کو ترک کرکے دیگر ممالک بلکہ غریب ممالک میں مستقل سکونت کو ترجیح دی۔ یہ تمام مثالیں اپنی جگہ تاہم یہ بنیادی سوال پھر بھی اٹھتا ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر سعودی شہری اپنے کو چھوڑ کر دیگر ممالک میں کیوں مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں؟۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: