Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی سیاسی چمتکاری

انہوں نے اگلے انتخابات میں سب کو پھینٹی لگاانے کی دھمکی دی، انہیں داروغہ بننے کی جلدی ہے، پیپلز پارٹی کی دو رنگی اسکے کچھ کام نہیں آرہی

 

سید شکیل احمد
   
    کیا انتخابات قر یب تر ہیں، جی ویسے تو قریب تر ہیں مگر ان کی قربت مشکو ک سی ہے اس بارے میں اب تک جتنی بھی آراء آچکی ہیں ان کو آدھا سچ ہی قر ار دیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی پا کستان کے انتظامی معاملا ت کے بار ے میں جتنی باتیں حکومت کی طر ف سے ہو ں تو قوم کو یقین نہیں ہو پا تا اب اسی کو دیکھ لیجئے گا کہ وزریر اعظم شاہد خا قان عباسی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ کوئی مان کر ہی نہیں دے رہا تھا مگر جیسے ہی چیف جسٹس صاحب کی طر ف سے نو ید آئی تو ہر کوئی پر امید ہو گیا بلکہ پریقین ہو گیا ، ویسے اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی جا نب سے بھی ایسا ہی کہا گیا تھا کہ انتخابات ہو ں گے اور شفا ف ہو ں گے تبھی یقین ہو چلا تھا مگر جتنی مر تبہ حکومت وقت نے کہا تو ہر کوئی سنی ان سنی کر رہا تھا ،ویسے انتخابات کی یقینی ملک میں نئی نئی سیا سی جما عتیں کے کھمبیو ں کی طر ح اُگ جا نے سے بھی اندا زہ ہو رہا ہے کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ ایسا ہی ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے خود مسلم لیگ ن بھی اسٹیبلشمنٹ کی جنم بھو می رکھتی ہے جس کا انکشا ف  2002سے 2008تک پاکستان کی سیا سی شخصیت چوہدری شجا عت حسین نے اپنی سیا ست بیتی میں کیا ہے مگر ان سے یہ نسیان ہو ا کہ وہ اپنی سیا سی بیتی ـ’’سچ تویہ ہے ‘‘ میں مسلم لیگ ق کی جنم بھو می کا ذکر نہ کر پا ئے حالا نکہ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کی جنم بھو می ایک ہی ہے تاہم ذہنی اختلا ف چھوٹی بڑی اولا د کی طر ح بھرا ہو ا ہے۔ مسلم لیگ ن جنر ل ضیا ء الحق کی نو ر چشم تھی تو مسلم لیگ ق ایک ایسے فوجی ڈکٹیڑمشرف کی آنکھ کا تا رہ رہی جو غداری کی سزا کے خوف سے فرار ہے تاہم چوہدری جی نے دل لگتی با تیں خو ب کی ہیں۔ انھو ں نے کتنا بڑا سچ بولا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں ان کو جنر ل پر ویز مشر ف نے ٹیلی فون کر کے بتایا کہ ان کی جماعت کو انتخابات میں 35،45  نشستیں مل جا ئیں گی۔ وہ اس پر بر ہم نہ ہو ں اب اندا زہ لگا لیجئے گا کہ انتخابات پا کستان میں کتنے شفا ف ہو تے ہیں اور دوسرو ں کی جان جگر ہو نے کے نا تے سیا ست دان کتنے خود مختار ہو تے ہیں۔ آصف زرداری ان سب سیا ست دانو ں میں ذہین وفطین سیا ست دان ہیں۔ انھوں نے بھٹو کے یوم پرانقلا بی شاعر حبیب جا لب کی نظم پڑ ھی ، حبیب جالب نے بھٹو  کے دور میں ان کے خلاف بھر پور شاعری کی اوربھٹو کا دور حکومت جیل کی سلا خو ں کے پیچھے کا ٹا تھا ۔ اگر اس دور کی بھی نظم پڑھ دیتے تو کیا ہی بھلا ہو تا خیر ما ضی کو ترک کر یں تازہ پر بات ہو جا ئے انھو ں نے اس مو قع پر جو تقریر کی اس میں ادعا کیا ہے کہ انھو ں نے کہا تھا کہ وہ سینیٹ نو از شریف کو لینے نہیں دیں گے۔ ایسا انھو ں نے کر دکھا یا اور اب ان کا دعویٰ ہے کہ پنجا ب میں بھی وہ حکومت بنا ئیں گے اس کا جو اب نو از شریف نے تو کچھ نہ دیا البتہ عمر ان خان جنہو ں نے سینیٹ کی سیڑھی چڑھنے میں مد د کی وہ خوب بولے بھی اور گرج بھی رہے ہیں انھو ں نے جو اب آں غزل کے طورپر فرمایا ہے کہ وہ سب کو اگلے انتخابات میں پھینٹی لگا دیں گے جس پر قلقلا خان پو چھتے پھر رہے ہیں کہ نیا زی صاحب وریر اعظم کے عہدے پر فائز ہو ں گے یا درواغہ بنیں گے پھینٹی لگا نے کی تڑی دے کر شہبازشریف کو چھوٹا ڈان قر ار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا یہ کہنا ہے کہ زرداری نے سینیٹ میں مال لگایا لیکن پیسے سے وہ پنجا ب فتح نہیں کر سکتے۔ منطقی طو رپر تحریک انصاف کے سربراہ کی بات تو درست ہے۔ کہا جا تا ہے کہ سینیٹ کیلئے جو سرمایہ کا ری ہو ئی اپنی جگہ لیکن اصل کام تو یقین کا ہے جو دلا یا گیا اور عمل کر ایا گیا۔ اب ایسا معلو م ہو تا ہے کہ آصف زرداری اور عمر ان خان دونوں اپنے اپنے یقین کے بوتے پر دعویٰ کر رہے ہیں ۔
          ویسے سابق فوجی آمر کا اپنے دور کے پہلے انتخابا ت کی بھی ایک منصوبہ بندی تھی۔ وہ یہ کہ وہ عالمی طا قتوں سے اس قدر مرعوب تھے کہ اقتدار کی خاطر ایک اسلامی ریا ست جس کا وجود ہی دین کے فلسفہ پر قائم ہو ا اس کو سیکو لر ازم کی نذر چڑھا نے کے منصوبے پر عمل پیر ا ہو ئے تھے جس کے تحت ان کی تیاری یہ تھی کہ سندھ کو پی پی اور ایم کیو ایم کے حوالے کیا جا ئے حالا نکہ ان میں سے کوئی جما عت نہ تو سیکو لر اورنہ ہی قوم پر ست ہے۔ پنجا ب کیلئے مسلم لیگ ق کے لیے دروازے کھولنے کا فیصلہ تھا بلوچستان حسب سابق سرداروں کی منڈلی چڑھانا تھا کیو ں کہ یہ ایسے سردار حکومت وقت کے انتہائی وفادار ہوتے ہیں کے پی کے کو مذہبی رنگ دینا تھا تاکہ دینی قوتوں کو مطمئین رکھا جا سکے۔ یہ منصوبہ بندی کسی حد تک کامیا ب رہی مگر پنجا ب میں چو ٹ پڑ گئی کیونکہ 2013ء کے انتخابات میں پنجا ب میں مسلم لیگ ق تو نہ ابھر سکی البتہ مسلم لیگ ن آگئی۔ اب ذرائع کہہ رہیں کہ اس مرتبہ سند ھ کے شہر ی علا قو ں سے پی ٹی آئی کو یقین دہا نی ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں ان کی جھولی میں آگریں گی صوبائی ایم کیو ایم کیلئے ہو ں گی مگر کونسی ایم کیو  اس وقت 3 ایم کیو ایم ہیں جبکہ ایک کا نا م بدلا ہو ا ہے مگر جس طر ح سے اس کی لیڈر شپ میں اضافہ ہو رہا ہے تو دھیان اسی طر ف کا رخ کرتا ہے۔ پیپلز پا رٹی کے دو رخ ہیں ایک طرف وہ سیکو لر جما عت کا عکا س سنبھالے ہو ئے تو دوسری جا نب وہ سندھی قومیت کے روپ میں سانسیں لے رہی ہے یہ دورنگی اس کے کا م نہیں آرہی ہے اسلئے پنجا ب کے بارے میں ان کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے جہا ں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کس نظریئے کی جما عت ہے جس ڈان کے انداز میں عمر ان خان ڈائیلا گ ما رتے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو صرف اور صرف درواغہ بننے جدوجہد ہے لیکن نو جوان لڑکو ں اور لڑکیو ں کا ان کے جلسوں اور جلو سو ں کو دیکھ کر گما ن ہوتا ہے کہ نہیں یہ پارٹی مغر ب ز دہ تہذیب سے متاثرہے اورلا دینیت کی پرچارک ہے مگر سیا ست سے ہٹ کر عمر ان خان کی سرگرمیو ں پر نظر پڑتی  ہے کہ وہ باقاعدگی سے مزاراتجاتے ہیں۔ دینی م درسوں کو ایک ایسے دور میں کروڑوں کی امدا د سرکا ری خزانے سے کر تے ہیں جبکہ موجود حالات میںدینی  پارٹی کہلانے سے بڑی بڑی شخصیا ت بھی گھبراتی ہیں او ر آئمہ مساجد کو معقول تنخواہ کی مدد میںادائیگی کا بھی اعلا ن کر رکھا ہے پھر یہ سوچ پڑتی ہے کہ وہ نہ تو لا دینی ہیں نہ قوم پر ست ہیں نہ مولوی ہیں نہ روحانی شخصیت ہیں پھر کیا ہیں یہ فیصلہ عوام کو ہی کرنا ہے کوئی ایک بند ہ بشر نہیںکر سکتا ۔یہ سیاسی  چمتکاری ہے جن کو بوجھا نہیں جا سکتا۔
مزید پڑھیں:- - - -عمران کے گلی گلی دورے، نواز شریف کی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم

شیئر: