Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے اندھیرے

صلاح الدین حیدر۔چیف بیور ،کراچی
    2 کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر کراچی جو نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے بلکہ قومی خزانے کا 67  فیصد بوجھ برداشت کرتا چلا آرہا ہے، پچھلے ایک مہینے سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ پنجاب، سندھ کے اندرونی علاقے یا بلوچستان اور خیبر پختونخوا  میں تو بجلی نہ ہونے کی حیثیت ایک عرصہ دراز سے عام تھیں لیکن کراچی تو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا جسے عروس البلاد کا نام بھی دیا گیا ۔یہاں بدقسمتی سے بجلی کی اس حد تک کمی ہوگئی ہے کہ 24 گھنٹوں میں 12 سے 16 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔
    طرہ اس پر یہ کہ بجلی مہیا کرنے والے نجی ادارے کراچی الیکٹرک جو کہ K-E کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے،نے بجائے کوئی معذرت کرنے کے ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے اعلان کردیا کہ جب تک ہماری گیس کی سپلائی پوری نہیں کی جاتی، ہم اس معمے کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ظاہر ہے، ایسا کوئی بھی بیانیہ حکومت وقت پر انتخابات کے قریب پریشانی کا باعث تھا۔بات یہیں پر ختم ہونے کی بجائے اب وفاق اورصوبہ سندھ کے درمیان لفاظی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے ۔
      وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ خاصے برہم نظر آئے کہ وزیر اعظم صاحب نے ان کے3 خطوط کا جواب دینے کی بجائے چپ سادھ لی ہے، اور اب وہ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ اسلام باد میں وزیر اعظم ہاؤس کے باہر دھرنا دیں گے کہ کراچی اور سندھ کے ساتھ زیادتی کیوں ہورہی ہے۔ معاملات اگر پیسوں کے لین دین پر ہوں تو مذاکرات سے حل کیا جاسکتاہے۔
    جب پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے دفتر کے سامنے اور کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرئے کیے تو وفاقی دارالحکومت میں ہل چل مچی لیکن بجلی کے وفاقی وزیر اویس لغاری نے یہ کہہ کرہم بلیک میل نہیں ہوں گے، آگ پر جلتی کا کام کیا جس پر محاذ آرائی مزید بڑھ گئی ۔سندھ کے وزیرا علیٰ کا یہ کہنا جائز ہے کہ ان کا صوبہ 70 فیصد گیس ملک کو فراہم کرتاہے ، تو پھراسے اس کاحصہ کیوں نہیں دیا جاتا لیکن وفاق کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔یہ تو انتہائی خطرناک بات ہے لیکن طوطی کی نگار خانے میں کون سنتاہے۔
    مسئلے کا غور سے جائزہ لیا جائے تو کراچی کو بجلی مہیا کرنے والی کمپنی  1913 میں قائم ہوئی اور 1952 سے حکومتی تحویل میں تھی۔کراچی ، لاہور اور اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج میں منافع بخش کاروبار کی وجہ سے مشہور تھی، لیکن تقریباً 2دہائی پہلے اسے نجی ادارے کے سپرد کردیا گیا۔ تب سے آج تک یہ تنقیدی نشانے پر ہے۔لوگوں کو شکوہ ہے کہ K-E بجائے بجلی کے ترسیلی نظام کو بہتر بناتی، اس نے صرف بقایا جات جو کہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر واجب الادا تھے، انہیں جمع کرنے میں مصروف ہوگئی، کچھ ترقیاتی کام بھی اس نے کیے، لیکن اتنے نہیں جسے تسلی بخش کہا جائے۔اس گرمی میں جہاں درجہ حرارت 35  سے 40  ڈگری تک پہنچ جاتاہے اور جہاں بارشیں بھی نسبتاً کم ہوتی ہیں، حکومت وقت لوگوں کی تنقید اور مسلسل احتجاج سے پریشان ہو کر مداخلت پر مجبور ہوئی اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کمپنی کے افسران سے ملاقات کی۔ ان کی شکایت سننے کے بعد سوئی گیس کمپنی انہیں اس کی ضرورت کے مطابق 276  ملین مکعب فٹ گیس روز انہ فراہم کرنے کے صرف 90 ملین مکعب فٹ یعنی ایک تہائی گیس فراہم کررہی ہے تو پھر وہ کہاں سے بجلی پیدا کریں۔سوئی گیس کمپنی والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کوٹے کے مطابق گیس نہیں ملتی بلکہ تقریبا آدھا پنجاب چلی جاتی ہے۔احتجاج اور مظاہر ے یہاں تک بڑھے کہ کراچی کے میئر وسیم اختر تک نے K-E کے خلاف انکی قیادت کی جماعت اسلامی، ایم کیو ایم نے بھی احتجاج نہ صرف سڑکوں پر  کیا بلکہ سندھ صوبائی اور قومی اسمبلی اسلام آباد میں بھی کیا۔
    گیس کمپنی چونکہ وفاقی ادارہ ہے اس لیے پانی اور بجلی کی وزارت کوبالآخرنوٹس لینا پڑا۔ اس نے بجلی کے اداروں کی دیکھ بھال کرنیوالے ادار ے نیپرا(National electric power regulatory authority) کی ایک 5 رکنی ٹیم کو حالا ت کا جائزہ لینے کے لیے کراچی بھیجا ۔ نیپرا کے افسران نے 4 روز ہ تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں K-E کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔رپورٹ کے مطابق بن قاسم پورٹ کے علاقے میں بجلی کے2 پاور اسٹیشن کافی عرصے سے بند ہیں۔ انکی مرمت اور صحیح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ 1016میگاواٹ پیدا کرنے والے یہ2پاور پلانٹ ، صرف 60 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں۔اگر گیس مہیانہیں تھی تو ان کو پانی پر چلایا جاسکتا تھا جو کہ K-E نے نہیں کیا۔ عام خیال یہی ہے کہ نجی کمپنی صرف پیسے بٹورنے میں مصروف ہے۔ اسکے گھروں اور صنعتی کارخانوں میں لگائے ہوئے بجلی کے میٹر بہت زیادہ بل دکھاتے ہیںتاکہ کمپنی کو زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرنے کا موقع ملے۔ یہ تو صریحاً لوٹ مار ہے لیکن لوگوں کی آواز صدا با صحرا سے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔بات جب اس حد تک بڑھی کہ کراچی کے صنعت کاروں نے کارخانے بند کرنے کی دھمکی دے دی تو حکومت نے آناًفاناً پاکستان اسٹیٹ آئل کو فرنس آئل کی درآمد کرنے کی اجازت دیدی لیکن درآمدات میں تو وقت لگے گا۔ حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے K-E نے وارننگ جاری کردی کہ رمضان کے مہینے میں جو کہ ایک مہینہ بعد شروع ہونے والا ہے، کہ بجلی کی کمی دور نہیں کرسکے گی اور لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوجائے گا۔ بے چارے شہری صرف فریاد ہی کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - -نظام و معیار تعلیم

 

شیئر: