Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کو صوبے بنانے پر اعتراض کیوں؟

 
کراچی (صلاح الدین حیدر)کراچی کے صوبے کا ذکر سندھ اسمبلی میں کیا آگیا کہ سارے کا سارا ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے ممبر تو اپنی جگہ شور شرابہ کرتے رہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے دھرنا شرع کردیا ، لعنت بھیجتا ہو ں میں کراچی کو صوبہ بنانے والوں پر سندھ تقسیم نہیں ہوسکتا۔ یہ دو عملی کیسی؟ جنوبی پنجاب صوبے بنانے پر تو پیپلزپارٹی سب سے آگے آگے ہے لیکن یہی اصول سندھ میں ، جہاں وہ10 سال سے اقتدار میں ہیں۔ چراغ پا کیوں ہوجاتی ہے۔پس منظر پر نظر ڈالیں تو پتہ چل جائے گا کہ تقسیم ہند کے وقت انگریزوں کے زیر سایہ  ہندو اور مسلم قائدین کے تحت معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے پایا تھا کہ جو لوگ  ہندوستا ن سے ہجرت کرکے پاکستان جائیں گے۔ وہ ہندئوں کی چھوڑی ہوئی زمین  کے مالک ہوں گے۔ 1947 میں سندھ میں40فیصد ہندو آبادی تھی۔ ان میں بہت بڑی تعداد ہندوستان لوٹ گئی۔ہندوستان سے مسلم اکثریت صوبوں سے ہجرت کا لا متناعی سلسلہ شروع ہوا۔لاکھوں بلکہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ مہاجرین ہندوستان سے اپنا گھر بار  ،اسلاف کی قبریں ،چھوڑ کے نئے ملک میں آ بسے۔ انہو ںنے یہاں صنعتیں قائم کیں۔ نظام حکومت چلایا، ہجرت کرکے آنے والے کی بھاری اکثریت تعلیم یافتہ اور انتظامی امور کی مہارت رکھتی تھی۔انہوں نے ایک نیا سسٹم یہاں دیا زمینوں کو آباد کیا ، سندھ جو کہ 1947سے پہلے پسماندہ علاقہ تھا، میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ صنعتیں لگنے سے ملازمت کے مواقعے پیدا ہوئے  ۔کراچی جیسے شہر ، حید ر آباد ، میر پور خاص ، ٹنڈو آدم، نواب شاہ، سکھر، جدید خطوط سے آراستہ ہوئے۔ مہاجرین نے خون جگر سے اس خطے کو سینچالیکن 1970کے بعد صورتحا ل میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جن پر ملک توڑنے کا الزام آج بھی لگتاہے اقتدار ایک سازش کے تحت سنبھالنے کے بعد مقامی لوگوں کو پہلے سے موجود پوزیشن پر افسران کے اوپر ان کو بٹھا دیا جس سے نفرتیں بڑھیں۔مہاجرین میں احساس محرومی پیدا ہوا جو کہ اب اپنی انتہا تک پہنچ گیا ۔ تاریخی ریکارڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ سندھ متروکہ زمین تھی، ہندو کے جانے کے بعد یہ مہاجرین کی ملکیت تھی۔ان پر سندھ میں قبضہ جمانے کا الزام صریحاً غلط ہے۔ انہوں نے سندھ کو ایک شکل دی ۔ اس کی ترقی میں بے انتہا اضافہ کیا،تو پھر ان کے ساتھ آج نا انصافی کیوں، آج سے دس 12سال پہلے وفات پانے والے نا بینا شاعر اقبال عظیم آبادی نے صحیح فرمایا تھا کہ ۔ جب لہو کو ضرورت پڑی، سب سے پہلے گردن ہماری ہی کٹی ، پھر بھی کہتے ہیں اہل چمن ، یہ ہمارا چمن ہے، تمہار ا نہیں،صوبے کا نعرہ شاید اتنی شدت اختیار نہیں کرتا لیکن پیپلز پار ٹی نے پچھلے دس سالہ دورِ اقتدار میں مقامی لوگوں کے علاوہ کسی بھی اردو بولنے والے کو نوکری نہیں دی۔ ان پر میڈیکل اور انجینئرنگ کالج میں داخلے بند کردیئے گئے۔ظاہر ہے رد عمل تو ہونا ہی تھا، کراچی صوبے کا نعرہ تیزی سے طاقت پکڑتا جارہاہے۔امریکہ سے سابق وفاقی وزیر بابرغوری نے اپنے ایک پیغام میں کر اچی صوبے کی حمایت امریکہ میں تحریک چلانے کی بات کی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی نے رویہ نہیں بدلا تو کراچی صوبے کا مطالبہ تاریخ کی شکل اختیار کرلے گا اُس پر پیپلزپارٹی کا کنٹرول مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہوجائے گا۔
 

شیئر: