Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرے کی تشکیل میں رضاکارانہ عمل کی اہمیت

نادیہ الشہرانی ۔ الوطن
سعودی وژن 2030کے خالق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وطن عزیز سعودی عرب میں رضاکارانہ عمل کا روڈ میپ مرتسم کردیا۔ انہوں نے اسکا اہتمام ”آرزوﺅں کے وطن “ کے ضمن میں کیا ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کی تشکیل میں رضاکارانہ عمل بنیادی حیثیت کا مالک مانا جاتا ہے۔ جب جب وقت جسمانی اور ذہنی محنت پر قادر افراد ہر ہفتے یا ہر مہینے رضاکارانہ عمل انجام دینگے ا ور جب جب وہ اپنے ہنر اور اپنی مہارت سے دوسروں کو رضاکارانہ طور پر فائدہ پہنچانے کا اہتمام کریں گے تب تب معاشرے کی تشکیل میں انکا کردار بڑھے گا۔ اسکی بدولت سماجی کفالت کا نظام مستحکم ہوگا۔ انسانی کردار مضبوط ہوگا۔ رضاکار اور اسکی خدمت سے فائدہ اٹھانے والوں کو یکساں فوائد حاصل ہونگے۔
برطانیہ کو بطور مثال پیش کرنا چاہوں گی۔ وہاں میری ایک سہیلی ہے۔ وہ ہر ہفتے بوڑھے لوگوں کے ساتھ تجارتی مراکز شاپنگ میں مدد کیلئے جاتی ہے اور کسی ایک بزرگ کے ہمراہ ہفتے میں 33گھنٹے گزارتی ہے۔ میری سہیلی کا نام ”اینا“ ہے۔ اسکا کہناہے کہ اس رضاکارانہ عمل کی بدولت اسکا ذہن تعلیم کے بوجھ سے ہلکا ہوجاتا ہے اور وہ بزرگوں کے ہمراہ جتنا وقت گزارتی ہے وہ اسکی حیات کے بہترین لمحات ہوتے ہیں۔ اسے ایسا لگتا ہے کہ بزرگ کو ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو تنہائی دورہم کرے۔ علاوہ ازیں خود مجھے بھی رضاکارانہ عمل کا فائدہ پہنچتا ہے۔ میں ”رضاکارانہ کارڈ “ کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ اور شاپنگ میں رعایت حاصل کرلیتی ہوں۔ کئی رضاکارانہ کام آپ کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ ایک انسان ہیں۔
میری سہیلی اینا رضاکارانہ عمل غیر منظم شکل میں نہیں کررہی ہے ۔ اس نے یہ کام شروع کرنے سے قبل اپنی یونیورسٹی سے تحریری اجازت لی۔ رضاکاروں کے ریکارڈ میں اپنا نام درج کرایا۔ وہاں سے رضاکارانہ کارڈ حاصل کیا۔ اسکے بموجب رضاکارانہ خدمت کے اوقات اور رضاکارانہ ٹیم تک کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔ اس اندراج کی بدولت رضاکارانہ عمل ذاتی رضا مندی سے بڑھ کر سماجی ، اقتصادی طاقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی بدولت ملکی پیداوار بڑھتی ہے۔ اخراجات کم ہوتے ہیں۔ رضاکار کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس ادارے سے جس کے ماتحت رضاکار کام کررہا ہوتا ہے تجربات اور مختلف قسم کی سہولیات بھی ملتی ہیں۔
جہاں تک میرا اورمجھ جیسے بہت سارے لوگوں کا معاملہ ہے تو سچی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی کی بھی مدد کرکے بڑا مزا آتا ہے۔ رضاکارانہ کام کرکے ایسا احساس ہوتا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کے احساس کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے آپ کوکسی کی خدمت پر مامور کیا۔ اس سے بڑھ کر انسانی فلاح اور کامیابی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
سعودی قیادت سماجی ذمہ داری کو ریاست کی اسٹراٹیجک اسکیم کا حصہ بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ سعودی قیادت چاہتی ہے کہ مملکت میں رضاکارانہ عمل کا کلچر عام ہو۔ یہ بلند نظری رضاکارانہ عمل کو منظم کرنے والے قوانین موثر کرنے کی متقاضی ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ ہر رضاکار کا اپنا ایک نمبر ہو اور وہ منظم دائرے میں رہ کر کام انجام دے۔
میں نے یہ کام تحریر کرتے وقت کئی لوگوں سے رضاکاروں کے اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے کی بابت دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ہرایک نے یہی مشورہ دیا کہ آپ اپنے طور پر یہ کام انجام دے سکتی ہو مگر مسئلہ میری اپنی ذات تک کا نہیں ہے۔ سعودی وژن 2030کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ 2030ءتک مملکت میں 10لاکھ رضاکار تیار ہوجائیں۔ اس تناظرمیں تجویز یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے ملازمین کو رضاکارانہ سرگرمیوں اور اوقات کا اندراج کرے۔ ان سے دریافت کرے کہ وہ کس قسم کی خدمت رضاکارانہ طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ تمام سرکاری اور نجی ادارے بلکہ ریٹائرڈ افراد ”ابشر“ کے ذریعے اس عمل سے منسلک ہوں۔ میری آرزو یہ بھی ہے کہ ہر رضاکار کے اندراج کا خود کار نظام قائم ہو۔ اعدادوشمار ہی فیصلہ کرینگے کہ ہم کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ لوگ اکاﺅنٹ پر رضاکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر 10لاکھ کے ہدف سے آگے بڑھ کر لاکھوں تک اس کی تعداد پہنچانے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرینگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: