Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کا غزہ پر مکمل قبضے کے لیے غور، بھوک سے مزید فلسطینی ہلاک

غزہ کے شعبہ صحت کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے میں غذائی قلت سے مزید آٹھ اور فائرنگ سے 79 افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: روئٹرز)
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 20 سال میں پہلی بار غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی حمایت کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیتن یاہو 22 ماہ سے جاری جنگ میں نئی حکمت عملی کے لیے سینیئر سکیورٹی حکام سے ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کی کوششیں بین الاقوامی دباؤ کے باوجود ناکام ہوئیں جن میں فلسطین میں پھیلی بھوک اور خوفناک حالات کو بہتر بنانے اور جنگ بندی کی طرف آنے کے مطالبات شامل تھے۔
دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے کے دوران مزید آٹھ افراد بھوک یا غذائی قلت کی وجہ سے جان سے گئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے فائرنگ کے تازہ واقعے میں مزید 79 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ہفتے کے آخر میں وزیر دفاع اسرائیل کیٹز اور آرمی چیف ایال ضمیر سے ملاقات کرنے والے ہیں جس میں سٹریٹیجک امور کے وزیر راب ڈرمر، جو نیتن یاہو کے معتمد خاص ہیں، بھی شریک ہوں گے۔
اسرائیلی چینل 12 نے وزیراعظم آفس کے ایک سورس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کی سرحدوں پر کنٹرول رکھتے ہوئے آبادکاروں اور فوج کو وہاں سے نکالنے کے 2005 کے فیصلے کو تبدی کر دیا جائے گا۔
اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعتیں الزام لگاتی رہی ہیں کہ حماس علاقے میں طاقت حاصل کر رہی ہے۔
یہ زیادہ واضح نہیں ہے کہ آیا نیتن یاہو ایک طویل قبضے کی پیش گوئی کی ہے یا حماس کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے مختصر مدت کے آپریشن کی بات کی۔

وزیراعظم نیتن یاہو رواں ہفتے جنگی حمکت عملی کے حوالے سے وزیر دفاع، آرمی چیف اور دوسرے حکام سے ملاقات کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)

چینل 12 کی رپورٹ پر وزیراعظم آفس سے رابطہ کر کے موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم وہاں سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
ایک فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حربہ ہو تاکہ حماس پر دباؤ ڈال کر رعایتیں لی جا سکیں جبکہ دوسری جانب فلسطین کی وزارت خارجہ بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ ایسی رپورٹس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
بیان کے مطابق ’دوسرے ممالک اور بین الاقوامی برداری پر زور دیا جاتا ہے کہ ایسی لیکس کو سنجیدگی سے لیں اور ایسے اقدامات کو روکنے کے مداخلت کریں چاہے ایسی لیکس کا مقصد دباؤ ڈالنا ہو، بین الاقوامی ردعمل کو جانچنا ہو یا پھر وہ حقیقی ہوں۔‘

 

شیئر: