Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ دن بھی آئے گا جب ہر انسان روزہ رکھے گا

 اگر جگر کے خلئے کو قوت گو یائی حاصل ہوتی تو وہ انسان سے کہتا کہ مجھ پر عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے ہی کر سکتے ہو
ڈاکٹر ہلوک نور باقی۔ ترکی
   ابھی کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ سے نظامِ ہضم کو آرام ملتا ہے۔ جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی... اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے ، اسی وجہ سے آیت کریمہ کا آخری حصہ یہ کہتا ہے ’’ اگر تم سمجھو تو‘‘۔
    آئیے جیسا کہ ہم اوپر آیات کے سلسلے میں کہہ چکے ہیں، اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے۔
    نظامِ ہضم پر اثر :
    نظام ہضم ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اہم اعضاء جیسے کہ مونہہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، حلق ،مقوی ٔ نالی(Alimentary canal)یعنی حلق سے معدے تک خوراک لے جانے والی نالی ، معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر و لبلبہ اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ تمام اس نظام کا اہم حصہ ہیں۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہو تے ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے ظاہر ہے کہ سارا نظام 24گھنٹے ڈیو ٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دبائو اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گھِس جاتا ہے۔
    روزہ ایک طرح سے اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر (Liver)پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ 15مزید عمل بھی ہوتے ہیں، یہ اس طرح تھکان کا شکار ہوجاتا ہے جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کیلئے پہرے پر کھڑا ہو۔ اسی کی وجہ سے صفرا (Bile) کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کیلئے ہو تا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتا ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
    دوسری طرف روزہ کے ذریعے جگر کو 4 سے 6 گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے ۔یہ روزہ کے بغیر قطعی نا ممکن ہے کیو نکہ بے حد معمولی مقدار کی خوارک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی ، اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورے کا پورا نظام ِ ہضم کا کمپیوٹر اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروفِ عمل ہو جاتا ہے ۔سائنسی نقطۂ نظر سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ تو ہونا ہی چاہئے۔
    جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے  متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے لیکن اگر جگر کے خلئے کو قوتِ گو یائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ’’ مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے ہی کر سکتے ہو‘‘۔
     جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے ۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو بر قرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہو تا ہے ۔ اسے یا تو ہر لقمے کو اسٹور میں رکھنا ہو تا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہو کر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہو تی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے ، اس طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن(Globulin) جو جسم کے محفوظ رکھنے والے (Immune)سسٹم کو تقویت دیتا ہے ،کی پیداوار پر صرف کر سکتا ہے ۔ روزے کے ذریعے گلے اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں ، کو جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جا سکتی۔
    انسانی معدہ روزے کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کر تا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں ۔ اس ذریعہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے ۔اس طریقہ سے معدے کے پٹھے اور معدے کی رطوبت پیدا کرنے والے خلئے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں ۔ جو لوگ زندگی میں کبھی روز ہ نہیں رکھتے، ان کے دعوئوں کے برخلاف یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے۔
    روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے ۔یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کی شریانوں کے غلاف کے نیچے(Endothelium)محفوظ رکھنے (Immune)والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے جیسے انتڑیوں کا جال۔ روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے ، اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہو سکتے ہیں۔
    دورانِ خون پر  اثرات:
    دن میں روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے ، یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم یہ بات ہے کہ سیلوں کے درمیان (Intercellular)مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹیشو یعنی پٹھوں پر دبائو کم ہو جاتا ہے ۔ پٹھوں پر دبائو یا عام فہم میں ڈائسٹا لک (Diastolic) دبائو کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہو تا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید برآں آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تنائو یا ہائپر ٹینشن کا شکار ہے۔رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچا تے ہیں۔ روزے کا سب سے اہم اثر دورانِ خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے ۔اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہ میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں ، ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزا جم نہیں پاتے ، اس طرح شریانیں سکڑ نے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جن میں شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis) نمایاں ترین ہے ، بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے۔
     چونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جا سکتا ہے ، آرام کی حالت میں ہوتے ہیںتو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہو جاتی ہے۔
    خلیوں پر اثرات:
     روزے کا سب سے اہم کام خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان تو ازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مادے مقدار میں کم ہوجاتے ہیں اس وجہ سے خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے، اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیل (Epithelial)سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے تواتر سے اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں اُ ن کو بھی صر ف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام او ر سکون ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت مندی میں اضافہ ہو تا ہے۔
    خلیہ جات کے علم کے نقطۂ نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تا کہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کر سکیں اور مزید کا م کرنے کیلئے اپنی توانائیوں کوجلادے سکیں۔
    خون کی تشکیل:
    خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے ۔ جب کبھی جسم کوخون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام
 ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر کر دیتا ہے ۔ کمزور اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ، یہ کیفیت بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں کے ضمن میں بھی پائی جاتی ہے ، اسی وجہ سے پژ مردہ اور پیلے چہروں والے لوگوں میں روز بروز اضافہ ہو تا جارہا ہے۔
    روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے، اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کر سکتے ہیں ۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ رکھنا ہی پڑے گا ۔ چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے اسلئے یہ ہڈی کے گودے کیلئے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے کہ جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہوسکے۔
    اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیا تیا تی برکات کے ذریعے ایک دبلا پتلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کر سکتے ہیں۔
    ہاں مہربان قاری! آئیے اب آیت نمبر 184 کے آخر ی حصہ کو دوبارہ یاد کریں اور قرآن کے پاک معجزے کی مسرت سے لطف اندوز ہوں۔
    ’’اگر تم سمجھو ( یعنی اگر تم جسم کے حیا تیاتی علم کو سمجھو ) تو تمہارے حق میں یہ اچھا ہے کہ تم روزہ رکھو۔‘‘ ( چاہے اس میں تمہیں مشکلات بھی نظر آئیں)
     اعصابی نظام پر اثر:
     اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑ ا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس قسم کی صورتحال ان انسانوں کے اندر انا نیت یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے ، اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے ۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں، اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دبائو کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔
    روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ سرد پڑ جاتی ہیں اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دورانِ خون کا بے مثال توازن قائم ہوجاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کر تا ہے۔ اندرونی غدود کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر انداز ہو تا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے۔
    انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے ، اعصابی نظام سے ہر قسم کے تنائو اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - رمضان المبارک ، برکات و تجلیات کا مہینہ

شیئر: