Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران اور نیا پاکستان

***صلاح الدین حیدر***
22 سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر عمران نے منزل تو پالی، لیکن بقول شاعر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ الیکشن تو جیت گئے عمران صاحب، وفاق اور خیبرپختونخوا میں حکومت اب اُن کے قدموں میں ہے اور جو نتائج ابھی تک چلے آرہے ہیں، ہوسکتا ہے پنجاب میں بھی تحریک انصاف ہی اقتدار سنبھالے۔ وزیراعظم تو وہ بن جائیں گے، لیکن مسائل کا پہاڑ اُن کے سامنے کھڑا ہوگا۔ ایسا پہاڑ جو دُنیا کی بلند ترین چوٹی ہمالیہ سے بھی بلند، جسے سر کرنا جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن جو چیز خوش آئند ہے وہ ہے عمران کا عزم و اعلیٰ ہمتی۔ اُس نے ورلڈکپ جیتا، پاکستان کا نام روشن کیا، شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور اور پشاور میں بنایا اور اب کراچی میں تیسرا اسی قسم کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ نمل یونیورسٹی میانوالی جیسے غریب پرور علاقے میں بناکر اُس نے ملک و قوم کو قیمتی تحفہ دیا ہے۔
الیکشن جیتنا وہ بھی تن تنہا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اُس نے وہ بھی کر دِکھایا، لیکن الیکشن کمیشن کی غیر ذمے داری کی وجہ سے انتخابات متنازع ہوگئے، چہار سُو سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ نتائج غلط ہیں۔ کیا شہباز شریف، کیا بلاول بھٹو، کیا مولانا فضل الرحمٰن، کیا ایم کیو ایم اور کیا پاک سرزمین پارٹی، سب نے ایک ہی رَٹ لگا رکھی ہے کہ الیکشن اسٹاف نے فارم 45 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو نہ دے کر آئینی اور قانونی ذمے داری سے غفلت برتی۔ بات اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن کسی فرد یا ادارے کی غلطی کی سزا الیکشن جیتنے والی سیاسی پارٹی یا اُس کے سربراہ کو کیوں دی جائے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ دُکھ سہے بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں۔ عمران یا تحریک انصاف کی تو کوئی غلطی نہیں ہے۔ اگر صبح چار بجے چیف الیکشن کمشنر جو کہ عدالتِ عالیہ کے جج رہ چکے ہیں اور اُن کے بقیہ ساتھی بھی ہائی کورٹ سے آئے ہیں، تو سیکریٹری بابر یعقوب اور الیکشن کمیشن کو فارم 45 پولنگ ایجنٹوں کو نہ دینے کی سزا تجویز کی جائے، عمران یا اُن کے ساتھیوں جنہوں نے شب و روز بلکہ برسوں کی محنت کے بعد اپنی کاوشوں کا ثمر پایا ہے، وہ تو مجرم نہیں ہیں، غلطی کرے کوئی اور، مجرم کسی اور کو گردانا جائے لیکن پاکستان میں عرصۂ دراز سے اُلٹی گنگا بہتی چلی آرہی ہے۔ اب بھی وہی اندازِ واردات ہے۔ کب بدلے گا ہمارا نظام یا ہمارا طرز زندگی، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
الیکشن 25 جولائی کو ہوئے اور آج 26 جولائی کو جب میں یہ سطور قلم بند کرنے بیٹھا ہوں تو ایک گھنٹے پہلے تک صرف 43 فیصد نتائج کا اعلان کیا گیا تھا۔ جو نیا نظام نتائج کی ترسیل کے لیے بنایا گیا تھا تو اُسے پہلے سے ٹیسٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ آخری وقت میں اُس میں خرابی پیدا ہوئی اور نتیجہ پوری قوم کو سہنا پڑا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ الیکشن کمیشن شروع سے ہی اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا چلا آیا ہے، تو پھر سزا بھی اُسے ہی دینی چاہیے۔
اب جب کہ عمران خان چند دنوں میں وزیراعظم جیسے اہم منصب پر براجمان ہوجائیں گے تو اُنہیں گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت پھولوں کی سیج کے بجائے کانٹوں کا بستر بنتی نظر آرہی ہے، ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، خزانہ خالی ہے، روپے کی قدر و قیمت پورے براعظم ایشیا میں سب سے کم تر ہے۔ عمران کو بھٹو سے سبق سیکھنا چاہیے، کہ اُن پر ملک توڑنے کا الزام لگا، لیکن 16 دسمبر 1971 کو ملک دولخت ہونے کے چار دن بعد 20 دسمبر کو رات گئے اُنہیں صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنا پڑا، لیکن بھٹو نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چند گھنٹوں میں ایک کچن کابینہ چند مخصوص ساتھیوں کی بنا دی اور خود تین روز بعد 10 ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ تین یا چار دن کے قلیل عرصے میں اُنہوں نے دس ممالک کے سربراہانِ مملکت یا وزرائے اعظم سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کے نقطۂ نظر کو اُن تک پہنچایا۔ چند روز بعد دوسرا اور پھر تیسرا دورہ۔ گویا ایک مہینے کے اندر وہ 30/35 ممالک کے دورے کرچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی نقطۂ نظر اور ملکی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بیرونی حمایت حاصل ہوگئی۔ وہی بھٹو جسے ملک توڑنے پر غدار کہا گیا تھا، اُس نے پاکستان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کردیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز کو ایک نئی زندگی دے دی تو غلط نہ ہوگا۔ عمران کو بھی اُن کی پیروی کرنا پڑے گی۔
نواز شریف کے زمانے میں 4 سال تک ملک وزیر خارجہ جیسے اہم عہدے کے بغیر رہا۔ نتیجتاً پاکستان کا کیس بیرونی دُنیا کو سمجھانے کا زرّیں موقع گنوا دیا گیا۔ اب عمران کو چاہیے کہ فوری طور پر ایک مختصر کابینہ تشکیل دیں جس میں وزیر خارجہ، وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کو عہدوں پر تعینات کیا جائے اور پھر وہ یا تو خود، یا وزیر خارجہ کے ہمراہ بیرونی دوروں پر نکل کھڑے ہوں تاکہ دُنیا کے سامنے پاکستان کا نقطۂ نظر رکھا جاسکے، اُس کی مشکلات کے بارے میں دُنیا کو آگاہ کیا جاسکے اور اُن کی حمایت حاصل کی جائے۔ آصف زرداری نے 2013 الیکشن کے بعد پاکستان کلب بنایا اور نیویارک، لندن، دبئی جیسے اہم ممالک میں اُس کے اجلاس کرکے 2 بلین ڈالرز سے زیادہ امداد حاصل کرلی، لیکن چند ناگزیر وجوہ کے باعث پیسے پاکستان کو نہیں مل سکے۔ جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، امریکا، انگلستان سب نے اپنے حصّے ڈالے لیکن پاکستان کو کیش دینے سے انکاری تھے۔ اُن کا کہنا بھی صحیح تھا کہ اسلام آباد اُنہیں منصوبے دے، وہ خود ہی اُنہیں پورا کرکے پاکستانی معیشت کو اُبھرنے میں زرداری کی مدد کریں گے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضوں کا کشکول لے کر جائے گی، یا اپنے منصوبوں کے لیے خود اپنے وسائل پر انحصار کرے گی۔ دوسرا راستہ باعزت ہے، لیکن فوری طور پر وسائل کا معاملہ آڑے آتا ہے، جس کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ عمران کے خلاف ایک مافیا تیار نظر آتا ہے۔ شہباز شریف، ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمٰن، پاک سرزمین پارٹی، آصف زرداری سب ہی اُس کے خلاف الیکشن کی نفی کرنے کے لیے محاذ کھولنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ عمران ایک عالی ہمت اور پُرعزم شخصیت کا مالک ہے، وہ ان سازشوں سے گھبرانے والا نہیں۔ چومکھی لڑنا اُس کی فطرت میں ہے۔ ان سب مافیا سے اکیلا ہی نمٹ لینے کی مہارت رکھتا ہے۔ اس مافیا سے تنہا ہی نمٹ لے گا۔ ہاں ایک مشورہ ضرور دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت وہ بدلے کی آگ میں جلنے کے بجائے، مثبت حکمت عملی اختیار کرے۔ نواز شریف اور زرداری کی دولت واپس لانے کو فی الحال کسی اور موقع تک اُٹھا رکھے۔
بدلہ لینا اُس کی ترجیحات میں شامل ہوگا تو مثبت کام منفی صورت اختیار کرلیں گے اور نئی حکومت اپنی منزل کھو بیٹھے گی۔ پاکستانی معیشت کو اُبھارا دینے کے لیے ماہرین کی کمیٹی مستقبل کے وزیر خزانہ اسد عمر کے ماتحت قائم کردی جائے جو فوری اقدامات تجویز کرے کہ روپے کی قیمت میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سدباب کرسکے۔ روزگار کے مواقع خود بخود ان منصوبوں کا حصّہ ہوجائیں گے، اہداف مقرر کرنا اوّلین ترجیح ہے۔
 

شیئر: