Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر ان سے اچھا کوئی نہیں توکیا ہم سے برا کوئی ہے؟

مسز ربانی۔ جدہ
حال ہی میں امریکہ شفٹ ہونے والی دوست کی کال آئی تو وہ بہت خوش تھیں کہ جان چھوٹی روز ، روز کے ڈ ر سے۔ یہاں تو بے حد سکون ہے ، کوئی کسی کو حسد سے نہیں دیکھتا ، کسی کو کسی سے غرض نہیں۔ سب مسکراتے ہیں ایک دوسرے کو ہائے اور بائے کرتے ہیں۔ اخلاقیات کی مثال ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے کچھ گر جائے تو آپ سے پہلے وہ اٹھاکر دیتے ہیں۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرکے کمالیتا ہے۔ نہ کوئی فکر ہے نہ غم۔ میری بہت ہی قریبی سہیلی ہے ، اس سے بھی کافی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ میں ذہنی تنا¶ کا شکار تھی کہ اچانک ایک اور میری پرانی سہیلی ہیں، انہوں نے بھی کال کرلی۔
ان کی کہانی پہلی والی سے مختلف تھی حقیقت پر مبنی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ قانونی طریقے سے کوئی آتا ہے تواسکی زندگی آسان ہے وگرنہ چھوٹے موٹے کام کرکے لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے اپنا ہو تو پھر کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔ 10 بارہ برس یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ صرف گرین کارڈ کے چکر میں گزارنا عذاب سے کم نہیں۔ اپنے پرائے ، والدین ، رشتے ناتے سب کو پیچھے چھوڑ کرحَسین زندگی کے خواب دیکھنے والوں کو ہم نے مرتے بھی دیکھا ہے ۔ بچوں کے رشتوں کے مسائل ، ان کی تربیت اور اصلاح حال کی فکر ، یہ ایسے حقائق ہیں جن سے پردہ پوشی ناممکن ہے۔ پھر بھی لوگوں نے آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں۔
وہ خود ایک ترقی یافتہ قوم ہیں اسی لئے کسی کی مدد کررہے ہیں ورنہ ایک بھوکا آدمی کسی کو کھانا کھلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں کے چھوٹے پارکوں میں جس جس نے اپنا حصہ ڈالا، سب کے ناموں کے ساتھ ان کے کاموں کی تفصیل پارک میں لکھ کر لگا دی گئی تاکہ ہر پڑھنے والا ان سے واقف ہوسکے اور اس میں کچھ ایسا کرنے کاجذبہ بیدار ہو جسے اس طرح سراہا جائے۔ 
سردیوں میںا یک جوڑی موزے یا ایک ٹوپی اسکول کے بچوں سے جمع کی جاتی ہے۔ وہ " ایک" کئی لاکھ بن جاتے ہیں تو کیا وہاں کوئی سردی سے مر سکتا ہے، بیمار ہوسکتا ہے ؟ یقینا نہیں بلکہ ان کے اپنے استعمال سے بھی کہیں زیادہ ہونے کے باعث اسے دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی تنظیمیں اور جماعتیں نیلے پیلے کالے ڈیز منانے میں مصروف ہیں۔اگر ہم اُن ترقی یافتہ اقوام کے اخلاق کے بارے میں لکھنے بیٹھیں تو اپنی اوقات ہی بھول جائیں اور ان میں ہی گم ہوجائیں بالکل ایسا ہی حال وہاں جانے والوں کا ہے۔ وہ ان کے گن گا گاکر نہیںتھکتے اور اپنے بارے میں کوئی ہوش نہیں کہ وہ خود کیا ہیں۔ 
دراصل ہمارا دہرا رویہ زندگی کے معاملے میں ہمیں ان تذبذبات کا شکار کرتا ہے اگر ایک پڑھا لکھالڑکا ہمارے اپنے ملک میں کسی فوڈ ا اسٹریٹ پر صفائی کرے یا کسی ہوٹل میں برتن دھوئے تو نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ لوگ اسے اپنا رشتہ دار کہنے سے بھی گریز کرتے ہیں جیسے اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جرم کیا ہو یا کسی غیر مذہب کی لڑکی سے شادی کرلی ہو جس کے باعث پورا خاندان اس کے خلاف ہوجاتا ہے ۔ اگر یہی قریب رہ کر 6 ماہ والدین بھائی بہنوں سے نہ ملے تو خون سفید ہونے کا طعنہ دیا جاتاہے۔ کسی کے بچے بداخلاق ہو ں ، دین کے راستے پر نہ ہوں تو اسکے والدین پر انگلی اٹھتی ہے یعنی اسلام اور اسکے اصول اپنے ملک میں رائج کرکے رہ سکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کی خیر نہیں لیکن یورپ جاکر ہر چیز سے دستبردار ہوجائیں اور ان کے گن گاتے رہیں کہ یہ لوگ تو ایسے ہیں، ویسے ہیں، بڑا اچھا اخلاق ہے صرف کلمہ نہیں پڑھتے ورنہ ہر کام ان کا اسلام کے مطابق ہے ۔ تو بھئی سوچنے کا مقام تو ہمارے لئے ہے کہ ہم نے کلمہ پڑھ کر کیا کیا۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارا تو ہر کام ہمارے دین اور مذہب کے خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس نے کہا کہ ان کو ہم سے حسد نہیں؟ یہ ان کا حسد ہے ، جلن ہے، دلوں کی تنگی ہے جو آپ کو آسائش مہیا کرتے ہیں۔ آپ کو آپ کے دین سے نکال لاتے ہیں۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مکر سے پھانس کر بڑے بڑے مسائل میں ڈال دیتے ہیں اور ہم اسی میں پھڑپھڑاپھڑ پھڑا کر مر جاتے ہیںاور اپنے ساتھ کئی نسلوں کو لے ڈوبتے ہیں ۔ 
ہماری خواتین اپنے بچوں کی پیدائش کے لئے وہاں جاتی ہیں۔ ”پُراُمید“خواتین 16 یا 14 گھنٹے سفر کرکے وہاں کے ڈاکٹروں سے جھوٹ بولتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ ترقی یافتہ ملک میں آنکھ کھولے اور 18 سال بعد وہ بچہ ان کواپنے ”وطن“ میں بلانے کا قانونی دعویدار ہوسکے ۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم نے اپنے لخت جگر کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ”اغیار“ کے حوالے کردیا ، ان کی خوراک، ان کی دوا ، ان کا ماحول اور جھوٹ پر مبنی حالات ، ایسے میں ہم اس بچے سے کیا امید رکھتے ہیں یا اغیار کی اتنی بڑی مہربانی کو کیا نام دیں گے جبکہ وہ ہمارے جھوٹ سے بھی اچھی طرح واقف ہے مگر خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور نسل پر انہوں نے بغیر مانگے قبضہ کرلیا۔ یہ ان کی فتح اور ہماری بدنصیبی ہے جسے ہم لوگوں کے سامنے ایسے بیان کرتے ہیں گویا ان سے اچھا کوئی نہیں توذرا یہ بھی سوچ کر دیکھیں کہ کیا ہم سے برا کوئی ہے؟
ہم کب کسی پارک یا یادگار جگہ کو اپنے بچوں کیلئے مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ دیکھو جب یہ پارک بنا تو اس میں فلاں شخص نے پودا لگایا ، فلاں نے پانی ڈالا یا فلاں نے اس میں اتنا پیسہ لگایا یا یہ جگہ ہمارا سرمایہ ہے، اسکی حفاظت کا طریقہ بتایایا اس میں گلی محلے کی صفائی کا شوق بیدار کیا، اسے مدرسے یا اسکول کی اہمیت بتائی۔ مریضوں کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ غریبوں کو سردیوں میں موزے یا ٹوپیاں دیں۔ بس ہم تو رمضان کریم میںساری نمازیں، زکوٰة اور بھلائی کے کام کر کے باقی 11 مہینے سوئے رہتے ہیں۔ 
معاشرتی لگا¶ کایہ حال ہے کہ ہر شخص انفرادی برائی کرکے اجتماعی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس کا نتیجہ ہمارے نااہل حکمران ہیں جنہیں ہم پر مسلط کیاجاتا ہے۔ ہم ہر پانچ سال بعد ان ہی میں سے کسی کو اپنا راہ نما مان کر چلنے لگتے ہیں۔ 
میں ایک تحریر پڑھ رہی تھی ، ایک ہندو خاتون نے کہا کہ بعض مسلمانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر نہیں چلتے ۔ وہ ان کی کوئی خوبی نہیں اپناتے ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔
قومی راہ نما کے معاملے میں بھی آپ اپنے لیڈرز کو ان کے عمل کو ان کے اصولوں کو نہیں اپناتے ۔ جناح جیسے عظیم رہنما کی تصویر کو کرنسی نوٹ پر چھاپ دیا ہر فورم پر آپ ان کی عزت بھی کرتے ہیں لیکن جب ان جیسا بننے کی باری آتی ہے یا ان کے نکات پر عمل کا مسئلہ ہوتا ہے تو آپ دائیں بائیں دیکھتے ہیں چنانچہ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو قائد اعظم کے اصولوں پر عمل شروع کردیں تو آپ کا ملک یورپ سے بھی آگے نکل جائے گا۔ اگر ہم کسی کو آئیڈل بناتے ہیں تو اسکی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ منافقت کا رویہ نہ صرف ہمیں بلکہ ہماری نسلوں کو بھی ختم کرتا جائے گا۔
زندگی کو حقیقت اور عمل کی نظر سے دیکھنا چاہئے اگر آپ نے دھوپ کا چشمہ لگالیا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ دھوپ ختم ہوگئی وہ تو اپنی پوری تمازت سے وقت کے ساتھ ڈھلتی ہے ، بدلنا ہے تو ہمیں اپنا نظریہ بدلنا چاہئے ۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے یورپ و امریکہ جا کر ترقی یافتہ اقوام کی تمام خوبیوں کو بغور دیکھا اور واپس آکر اپنے ملک میں اسے رائج کرنے کی کوشش کی ۔ ملک تو رہنے ہی دیں، اپنی اولاد ، بھائی بہنوں کو تربیت دی ہو؟ بہت مشکل ہے قول او ر فعل میں تضاد دور کرنا۔ ہم دوسروں کا فعل دیکھ کر ان کی تعریف کے پُل بناکر چلتے رہتے ہیں۔ ہمارا اپنا کیا ہے ہم نے کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ جس دن غور کرنا شروع ہوگا عمل سے قریب ہونے کا وقت شروع ہوجائے گا۔

شیئر: