Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدل لائبریری: سعودی عرب کے الشرقیہ ریجن میں ایک ثقافتی نخلستان

اس لائبریری میں آج 37 ہزار سے زیادہ کتب کا خزانہ موجود ہے(فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے الشرقیہ ریجن میں واقع ایک پرسکون قریے ام الحمام میں کتابوں سے محبت کا عمر بھر کا شوق اب ایک ثقافتی نخلستان بن گیا ہے۔  
علی الحرز کتابوں کے بے حد شوقین اور ادبی دستاویزات کے محافظ ہیں۔ انھوں نے اپنے گھر کو ’جدل‘ لائبریری میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس لائبریری میں آج 37 ہزار سے زیادہ کتب کا خزانہ موجود ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ اخبارات، میگزین اور پرانے نسخے ہیں، جن میں سے کچھ سو سال سے زیادہ قدیم ہیں۔  
پھر بھی ’جدل‘، محض ایک لائبریری نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ حیثیت کی حامل ہے۔ یہ وہ عجائب گھر ہے جہاں تحقیق کی جستجو کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفے کے مسائل پر غور وفکر ہو سکتا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جو اہم ثقافتی کہانیوں کو بھول جانے کے خلاف ایک محاذ بھی ہے۔  
علی الحرز نے عرب نیوز کو بتایا ’پیدائش کے بعد سے اب تک میرے ارد گرد والدہ کی کتابیں رہی ہیں۔ میں اس جذبے میں سرشار رہتے ہوئے جوان ہوا۔ میں ان میں اس حد تک کھو گیا کہ اور کچھ یاد نہ رہا۔ میں کتابی کیڑا بن گیا تھا۔‘  
الحرز میں یہ جذبہ یوں بیدار ہوا جب تیرہ برس کی عمر میں ’صراط عنتر‘ نامی رزمیہ نظم ان کے ہاتھ لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس نظم کو پڑھنے کے بعد میری نگاہیں دیگر دنیاؤں پر پڑنے لگیں۔‘ 
علم کی طرف یوں کھنچے چلے جانا اور کتابیں پڑنے کا تجسس ہی وہ وجوہ تھیں جس کی بنیاد پر انھوں نے سعودی عرب کے ایک ایسے انیشی ایٹیو کا آغاز کیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں۔  

نایاب مسودے، قدیم تحریریں، سب کو احتیاط کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے(فوٹو: عرب نیوز)

عربی زبان میں لفظ ’جدل‘ کے معانی ہیں ’بحث‘، جو ان کی قائم کردہ لائبریری کے پس منظر میں تجسس کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔
علی الحرز کا مقصد کتابوں کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ وہ ’(فکری) تصور یا خیال کی کھوج لگانے اور سوال کرنے‘  کے رویے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔‘  
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے لائبریری کا نام جدل اس لیے رکھا کیونکہ اس کی جڑہیں قدیم یونان کے فلسفے کی تاریخ سے جا ملتی ہیں اور ہماری اپنی عرب 
ثقافتی روایت اور خاص طور پر مذہبی میراث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔‘  
ان کے گھر کے تین ہال ایسے ہیں جہاں فلسفیانہ فضا پائی جاتی ہے۔ ایک ہال کا نام سُقراط، دوسرے کا افلاطون اور تیسرے کا ارسطو ہے۔ یہاں آنے والوں کو اپنی مرضی کے مطالعے اور غور فکر کرنے کے لیے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔  

 ایک لاکھ سے زیادہ اخبارات، میگزین اور پرانے نسخے ہیں، جن میں سے کچھ سو سال سے زیادہ قدیم ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

نایاب مسودے، قدیم تحریریں، اخبارات اور علم سے جڑی ہوئی پرانی چیزیں، سب کو احتیاط کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں موجود ہر چیز ماضی کی ایک سرگوشی ہے جو مسقبل سے ہم کلام ہے۔  
علی الحرز وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اب تو میں بھی جب کتاب خریدتا ہوں تو میری توجہ اس کتاب کے نایاب ایڈیشن اور پرانی اشاعت پر ہوتی ہے تاکہ 
میراث اور جدیدیت کے مابین ہم آہنگی قائم ہو جائے۔‘  
لیکن ’جدل‘ ماضی میں پھنسی ہوئی کوئی یاد نہیں۔ الحرز ہر دو ہفتے بعد ایک ادبی محفل سجاتے ہیں۔ یہ وہی روایت ہے جو عربوں کی شعوری یا دانشورانہ زندگی میں بہت اہم ہُوا کرتی تھی۔ یہ لائبریری ایک ماحول ہے جہاں مصنف، علما، اور سوچ وبچار کرنے والے عربی کافی پیتے ہیں اور جوش و جذبے کی فضا میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔  

علی الحرز اب بھی روایتی طریقوں پر چل رہے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

ایک ایسے زمانے میں جب لوگ فوری طور پر آن لائن معلومات چاہتے ہیں، علی الحرز اب بھی روایتی طریقوں پر چل رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’دو نسلوں کے درمیان ایک جدوجہد جاری ہے۔ فتح جدید نسل کی ہی ہوگی لیکن یہ فتح تب ہوگی جب وہ نسل معدوم ہو جائے گی جس سے میرا تعلق ہے۔ کاغذی لائبریریاں اس وقت عجائب گھروں میں بدل چکی ہوں گی۔‘  
شاید الحرز درست ہی کہتے ہیں۔ لیکن فی الوقت، القطیف کے ایک قریے میں ’جدل لائبریری‘ جاری و ساری ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں روشنائی، یاد داشت، مباحثہ اور میراث مملکت کی ثقافتی روح کی تشکیل کر رہے ہیں۔

 

شیئر: