Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عطائے رب کریم

***جاوید اقبال***
تشکیل پاکستان کب ہوئی تھی؟ 14 اگست 1947 کو؟ نہیں ! اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت گری 14 اگست1947 کو نہیں ہوئی تھی ! قیام پاکستان کی منزل کی طرف پہلا قدم کب اٹھایا گیا تھا؟ 23 مارچ 1940 کو؟ نہیں ! یہ جواب بھی درست نہیں۔23 مارچ 1940 کو تو ایک اجتماع منعقد ہوا تھا جس کے شرکاء نے اس مطالبے کو ایک تحریر عطا کی تھی جو عشروں سے ہر زبان پر نعرہ بن کر اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد دلی کے چوراہوں پر نصب سولیوں پر جھولتے مسلمان سپاہ اور مغل شہزادوں کے بے جان بدن ! ظلم و ستم کی حد ہوگئی تھی۔ آخری مسلمان تاجدار کو ظہیر الدین بابر سے لے کر خود اپنے آپ تک خاندان مغلیہ کے طمطراق ، جاہ اور انداز حکمرانی کا امین تھا۔ رنگون کی ایک کوٹھڑی میں بے بس ضعیف بدن بنا پڑا تھا۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ برصغیر کی امت مسلمہ پر آغاز زوال تھا۔ ہندو اور انگریز انتہائی مکار دشمن ہوئے ۔ اگلی ساڑھے 3 دہائیاں ایک کڑا امتحان تھا کہ رحمت ایزدی جوش میں آئی۔ صدی کا اواحر عطائے رب کریم کا وقت ٹھہرا۔ 1892 کے آخری مہینے کا آخری ہفتہ !! اس پر کالم کے آخر میں بات کروں گا۔ صرف 4 دن پیشتر 14 اگست کو برطانوی عجائب گھر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔ یہ ہندوستان کی آزادی کی سالگرہ تھی۔ معروف مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے یہ مجسمہ بنایا تھا۔ اسی فنکار نے موہن داس کرم چند گاندھی کا مجسمہ بھی بنایا تھا جسے پارلیمنٹ اسکوائر میں نصب کیا گیا۔ فلپ جیکسن نے قائداعظم کا مجسمہ بنانے پر 6 ماہ لگائے۔ مجسمہ ساز محمد علی جناح کی تصاویر سے انتہائی متاثر ہوا تھا۔ اس کا کہناہے کہ اس نے جتنی بھی تصاویر قائداعظم کی دیکھیں ان میں عظیم رہنما سیدھا کیمرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کے بازو جسم کے ساتھ لگے تھے۔ فلپ جیکسن قائد کی ایسی تصاویر کی تلاش میں تھا جن میں وہ غیر روایتی انداز میں کھڑے ہوں۔ تب اسے چند تصاویر ایسی ملیں جن میں وہ مونوکل یعنی ایک عدسے کی عینک استعمال کررہے تھے۔ یہ بات ان دنوں عجیب سی تھی کیونکہ مونوکل کا رواج نہیں تھا۔ چنانچہ ایسا مجسمہ بنایا گیا جس میں قائد کے ہاتھ میں مونوکل تھا۔ یوں تخلیق میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ محمد علی جناح نے اپنی جوانی کے ایام لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرتے گزارے تھے۔ اس کے بعد وہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی جدوجہد میں شامل ہونے کے لیے لندن سے ممبئی روانہ ہوگئے تھے۔ وہاں انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور آخرکار پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ برطانوی عجائب گھر میں ایک بڑے ہجوم کے سامنے لندن کے میئر نے مجسمے کا افتتاح کیا۔مجسمہ سازی کے اخراجات حکومت پاکستان نے برداشت کئے تھے۔ اس موقع پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس کا کہنا تھا کہ مجسمہ پاکستانی عوام کی طرف سے ان کے عظیم رہنما اور ان کے وطن کے بانی کے لیے عقیدت کا اظہار تھا۔ مجسمہ اب اس کے مستقل گھر لنکنزان منتقل کردیا جائے گا ، جہاں سے محمد علی جناح نے بار ایٹ لاء کی تھی۔ 
تو اب ہم پلٹتے ہیں 1892 کے دسمبر کے آخری ہفتہ کی طرف۔ 1857 کے بعد برصغیر میں مسلمانوں پر آغاز زوال تھا۔ اگلی ساڑھے 3 دہائیاں قعر مذلت تھا اور خواب غفلت کہ رحمت ایزدی جوش میں آئی۔ چنانچہ 1892 کے دسمبر کے آخری ہفتے میں ایک سفینہ ممبئی سے عازم لندن ہوا۔ اس میں ایک 16 سالہ نوخیز نوجوان محمد علی جناح بھائی نام کا بھی مسافر تھا۔ ابھی مسیں بھی صحیح طور نہیں بھیگی تھیں۔ اس کا باپ جناح پونجا ممبئی میں اوسط درجہ کا تاجر تھا۔ لندن کی گراہم اینڈ کمپنی سے اس کے کاروباری روابط تھے۔ محمد علی اپنے والد کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ گراہم اینڈ کمپنی کے منیجر نے پیشکش کردی کہ وہ اپنے بیٹے کو کاروبار میں اعلی تربیت کے لیے کمپنی کے صدر دفتر لندن بھجوادے۔ اس کے سارے اخراجات برطانوی کمپنی برداشت کرے گی۔ تجویز معقول تھی اور ویسے بھی جناح پونجا کے کاروباری حالات دگرگوں تھے۔ چنانچہ نوجوان محمد علی جناح بھائی کو 16 برس کی عمر میں ہی بحری جہاز میں سوار کرا دیا گیا۔ جنوری کے اوائل میں نوخیز جناح بھائی لندن کے ساحل پر اترا۔ اگلے چند دن برطانوی کمپنی کے بہی کھاتوں میں سر مارتے گزرے۔ دل نہ لگا۔ فرار کا فیصلہ کیا۔ عدالتوں میں آتے جاتے وکیل اور ان کے پروقار سیاہ چغے ہمیشہ سے ہی دل پر ہاتھ ڈالتے رہے تھے۔ چنانچہ محمد علی جناح بھائی نے فیصلہ کیا کہ قانون دان بنا جائے۔ لنکنز ان برطانیہ کی معرف درسگاہ تھی۔ دنیا بھر سے اعلی پائے کے قانون دان وہاں بار ایٹ لاء کرنے آتے تھے۔ تو ایک 16 سالہ بچہ بھی فروری 1892 کی ایک صبح وہاں جا پہنچا۔ اس کے مطابق صدر دروازے پر مختلف عقائد متعارف کرانے والے راہنماؤں کے نام تحریر تھے جن میںسرور کونین حضرت محمد کا اسم گرامی بھی تھا۔ چنانچہ محمد علی جناح بھائی نے اس درسگاہ میں داخلے کے لیے درخواست گزار دی۔ اب قانون یہ تھا کہ لنکنز ان میں داخلے کے خواہشمند کو کم از کم 19 برس کا ہونا پڑتا تھا۔ محمد علی نے اپنی عمر 16 برس کے بجائے 19 برس لکھ دی۔ قبول کرلی گئی۔ پھر ایک اور کڑی شرط بھی تھی۔ ہر طالب علم کو داخلے کا امتحان بھی پاس کرنا پڑتا تھا اور اس میں لاطینی زبان پر مہارت ثابت کرنا ہوتی تھی۔ نوخیز طالب علم نے ایک اور درخواست گزاردی کہ چونکہ برصغیر میں لاطینی زبان کی تدریس نہیں کی جاتی تاہم چونکہ وہ ہندوستان کی مقامی زبانیں جانتا ہے اس لیے اسے لاطینی کے امتحان سے مستثنی قرار دے دیا جائے۔ یہ التجا بھی منظور کرلی گئی۔ محمد علی جناح بھائی کی تربیت کا آغاز ہوگیا۔ 35 رسل روڈ کینسنگٹن پر رہائش پذیر اس نوجوان کی دنیا کتابوں میں آن بسی۔ علم کی پیاس ایسی لگی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی۔اس دوران میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا باقاعدہ مشاہدہ کرنا رائیل شیکسپیرین تھیٹر میں حاضری تاکہ انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو ،نطق اور لہجے سے شناسائی ہو، مقامی سیاست میں دلچسپی ، 16 سالہ نوجوان صرف 3 برسوں میں بار ایٹ لاء کرچکا تھا جبکہ متعدد دوسرے ملکوں سے آئے وکلاء اپنے بال سفید کیے ، جوتوں کے تلوے گھسارہے تھے۔  قانون کی شہرہ آفاق درسگاہ لنکنزان میں درجنوں ممتاز شخصیتیں تحصیل علم کرتی رہی ہیں۔ ان میں معروف سیاستدان بھی تھے، شعراء بھی ، قانون دان بھی ، رہنما بھی ! لیکن اس درسگاہ کے کامن روم کے داخلی دروازے پر صرف قائداعظم محمد علی جناح کی دلنشین تصویر نصب درخشانیاں بکھیر رہی ہے۔ ساری درسگاہ میں کہیں بھی کسی اور جگہ بھی کوئی دوسری تصویر نظر نہیں آتی۔ اب برطانوی مجسمہ ساز فلپ جیکسن کا بنایا قائداعظم کا دلکش مجسمہ مستقل تنصیب کے لیے برطانوی عجائب گھر سے لنکنز ان بھجوادیا جائے گا۔ تو پھر کرہ ارض کی محترم ترین درسگاہ میں صرف ایک تصویر اور صرف ایک مجسمہ قانونی ادارے کی تکریم میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ دونوں بانی پاکستان کے ہوں گے۔ تو پھر وہی سوال ! کیا پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تھا؟ کیا پاکستان 23 مارچ 1940 کو وجود میں آیا تھا؟ دونوں کا جواب نفی میں ہے۔ یہ عطائے رب کریم اس دن ہوئی تھی جب دسمبر 1892 کے آخری ہفتے میں ایک 16 سالہ بچے کو سفینے کا مسافرکیا گیا تھا۔
 

شیئر: