Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد الحرام کے علماء ، علم وعرفاں کے سوتے

 دنیائے اسلام کے گوشے گوشے سے فرزندان اسلام کبھی عبادت کی نیت ، کبھی مسجد الحرام کے علمی حلقوں سے وابستگی کیلئے آتے ہیں

     مکہ مکرمہ میں علم اور علماء کا تذکرہ معمولی  نہیں بلکہ غیر معمولی موضوع ہے،اسے چلتے پھرتے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسے شایان شان طریقے سے بیان کرنا ضروری ہے کہ اسکی نسبت بیت اللہ شریف سے ہے جسکا مقام و رتبہ بڑا بلند اور بڑا عظیم ہے۔ مسجد الحرام کے علماء و فقہاء کے تذکرے کا مطلب یہ ہے کہ آپ  حرم شریف میں اللہ تعالیٰ کے ہمسایوں کی بات کررہے ہیں۔ اسلام  میں ہمسائیگی کا مقام بڑا عظیم ہے ۔ ہمسایوں کے اعزاز و اکرام پر جتنا زور دیا گیا ہے وہ دنیا کے کسی نظام اور کسی مذہب میں نہیں پایاجاتا۔ جہاں تک علماء کی بات ہے تو وہ بلاشبہ نبیوں کی علمی و دعوتی پونجی کے وارث ہوتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ مختصر ، مستند اور مدلل گفتگو زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
    ہم اپنے قارئین کو مسجد الحرام کے دالانوں اور صحنوں میں لیکر چلتے ہیں جہاں شرعی علوم کی مجلسیں منعقد ہوتیں اور جہاں دینی علوم کے درس دیئے جاتے ہیں۔ مکہ روزاول سے تمام مسلمانوں کی آماجگاہ بنا ، آج بھی اور آئندہ بھی رہیگا۔ دنیائے اسلام کے گوشے گوشے سے فرزندان اسلام کبھی عبادت کی نیت ، کبھی مسجد الحرام کے دالانوں میں سجنے والے علمی حلقوں سے وابستگی کیلئے آتے ہیں ۔ اگلی سطور میں 13ویں اور 14ویں صدی کے بعض علماء کا تذکرہ پیش کیا جارہا ہے۔
    ڈاکٹر عبدالوھاب ابو سلیمان14ویں صدی ہجری میں مسجد الحرام میں’’ تدریس‘‘ کے زیر عنوان حرم شریف کی علمی مجالس کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ حر م شریف میں 14 ویںصدی ہجری میں تدریس کا عمل کئی تاریخی مرحلوںسے گزرا۔ ہر مرحلے کا اپنا تشخص اور اسکی اپنی خصوصیات ہیں۔ یہ مشترک بھی ہیں اور مختلف بھی جو سماجی و سیاسی تبدیلیوں سے متاثر ہوتی رہیں۔ جب جب معاشی  زندگی بہتر ہوتی ،جب جب سیاسی فضا پرسکون ہوتی تو حرم شریف میں تدریس کی مجلس اسی تناسب سے کشادہ ہوجاتی اور اگر سماجی و سیاسی و معاشی زندگی سکڑتی تو ایسی حالت میں علمی مجالس کا دائرہ بھی تنگ ہوجاتاتھا۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت سارے محرکات نشیب و فراز کاباعث بنتے رہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ 14ویں صدی ہجری کے دوران مسجد الحرام میں تدریس کا عمل 3مرحلوں سے گزرا جو یہ تھے:
    ٭ 14صدی ہجری کے شروع سے لیکر 1332ھ تک کا دور۔
    ٭ 1332ھ سے مسجد الحرام میں امیر مکہ کے دستخط سے جاری ہونے والے نظام تدریس والا مرحلہ۔
    ٭ سعودی عہد 1347ھ کے آغاز سے 14ویں صدی ہجری کے اختتام تک والا مرحلہ۔
    14صدی ہجری امن وامان اور خوشحالی وفارغ البالی والا دور مانا جاتا ہے۔ یہ گزشتہ صدیوں کے ادوار میں اپنا ایک نمایاں مقام بناچکا ہے۔اس دور میں ملک میں زبردست علمی ترقی ہوئی۔ مکہ مکرمہ  نے قدیم علمی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی۔ یہ فکری فروغ اور نشاۃ کا دور کہا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں مکہ مکرمہ سے ماہر علماء تیار کئے ۔ انہیں مسلم ممالک کے علماء سے فیض یاب کیا۔ مخلص لوگوں نے کئی علمی ادارے قائم کئے۔
    مسجد الحرام میں مسلم ممالک کے دیگر اداروں ، دانشوروں ، عالموں اور ادیبو ںکے پہلو بہ پہلو عموماً علمی نشاۃِ نو اور خصوصاً فقہی نشاۃِ نو کو سیراب کیا۔ سب نے مل جل کر علمی، فقہی تحریک میں حصہ لیا۔ تحریک بار آور ثابت  ہوئی۔ اسے صحیح معنوں میں مکہ مکرمہ کے علمی نشاۃ ِنو کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے علماء و فقہاء ، طلباء ، مسلم ممالک کے اسفار کرکے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی نشرو اشاعت میں مصروف ہوئے۔ انہوں نے مسلم اقوام  کے اندر فقہی شعور بیدار کیا۔ بعض علماء نے مکہ مکرمہ میں قیام کو ترجیح دی اور اسلامی علوم و فنون کو رواج دیا۔ ان علماء سے عوام و خواص سب نے فیض اٹھایا۔
    مکہ مکرمہ کے علماء و فقہا ء اور وہاں آنے والے علما ء و فقہا اس علمی نشاۃِ نو کا محور تھے،وہی علمی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔ ان کے ہاتھوں ہزاروں طلباء فارغ ہوئے جنہوں نے ارض مقدس کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کو مدرس ، فقیہ، قاضی اور مفتی فراہم کئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تصنیف و تالیف اور فکری جدت طرازی نے اسلامی کتب  خانے کو نادر روزگار تصانیف سے مالا مال کیا۔ کہہ سکتے ہیں  کہ 14ویں صدی ہجری کے دوران مکہ مکرمہ میں برپا ہونے والا علمی انقلاب تجزیہ نگاروں اور تاریخ کے ماہرین سے گہرے مطالعے کا متقاضی ہے۔
    علماء میں وہ بھی تھے جوحرم شریف کے اطراف واقع مدارس میں پڑھایا کرتے تھے۔ ان مدارس میں سرفہرست مدرسہ فخریہ عثمانیہ، مدرسہ صولتیہ اور مدرسہ الفلاح قابل ذکر ہیں۔ یہ علماء خواص و عوام میں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ طلباء انہیں انتہائی احترام و عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دور دراز علاقوں سے طلباء علم حاصل کرنے کے لئے پیدل اور اونٹ پر سوارہوکر آیا کرتے تھے۔ یہاں پہنچنے کے بعد علمی تشنگی دور کرتے اور پھر یہاں سے حاصل کردہ علمی و فکری فیضان کو اپنے اوطان تک پہنچانے کے لئے دوبارہ واپسی کا سفر طے کرتے تھے۔
    ابو سلیمان بتاتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے فیض یافتگان نے دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر مسجد الحرام کے اسکول کے علوم و فنون کو مختلف شکلوں میں پھیلایا، رائج کیا۔ اس حوالے سے مختلف علاقوںاور ملکوں میں قائم کردہ اسکولو ں کے نام بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔
    انڈونیشیا کے’’ مدارس نھضتہ العلماء ‘‘ ا سکی روشن مثال ہیں۔ ان مداراس کی تعداد 400سے زیادہ ہے۔ پرائمری اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک کی تعلیم مدارس نہضتہ العلماء میں دی جاتی ہے۔ یہ انڈونیشیا کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں پائے جانے والے بہت سارے علمی ادارو ں میں سے ایک ہے۔ اسکے قیام کا سہرافقہائے حرم ، علمائے حرم کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے سر جاتا ہے۔ مکہ مکرمہ اور اس کے فقہاء نے بعض مسلم ممالک کی بیداری میں غیر معمولی کردار اداکیا۔ انہوں نے آزادی کی تحریک کی چنگاری روشن کی چنانچہ 14ویں صدی ہجری کا دور ایسا ہے جب مسلمانوں میں فکری پسماندگی کا دور چھایا ہوا تھا۔ استعماری طاقتیں مسلمانوں پر مسلط تھیں۔مکہ مکرمہ میں 14ویں صدی ہجری کے دوران تعلیم پر گفتگو کے ضمن میں معروف مؤرخ محمد عمر ان مدارس اور ان تعلیمی  وسائل کی ایک فہرست گنواتے ہیں جو  مکہ مکرمہ کے اثر سے قائم ہوئے اور جو حرم شریف کے فیضان کی بدولت معرض وجود میں آئے۔
    مسجد الحرام میں شرعی اسلامی وعربی و عقلی علوم عموماً اور فقہی علوم خصوصاًاعلیٰ طریقے سے پڑھائے گئے۔14ویں صدی کے پہلے 8عشروں کے دوران یہاں تدریس کے فن نے بلند مقام پیدا کیا۔سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں یہاں علمی سرگرمیاں 24گھنٹے قائم تھیں۔ یہاں سے مقامی اور مسلم ممالک کے طلباء فارغ ہوتے اور اپنے اپنے وطن جاکر علم کی شمعیں روشن کرتے خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا، انڈونیشیا اور ملائیشیا حرم شریف سے بہت زیادہ جڑے رہے۔
     مسجد الحرام میں علمی مجلسوں کا طریقۂ کار:
    مسجد الحرام میں تدریس کا مخصوص طریقۂ کار نافذ تھا۔ مدرسِ حرم مجلس میں جبہ اور عمامہ پہن کر آ تے اور منبر پر بیٹھتے تھے۔ یہ جگہ مجلس کے بیچوں بیچ ہوتی اور پھر وہ بسم اللہ اور صلوٰۃ السلام کے ذریعے درس کا آغاز کر تے۔ اگر درس کا تعلق تفسیر سے ہوتا توقرآن کریم کی کسی آیت کی تلاوت سے درس کا آغاز کرتے اور اگر درس کا تعلق حدیث سے ہوتا توحدیث پڑھ کر اسکا آغازکرتے، پھر آیت کی تلاوت اور حدیث کے بیا ن کے ساتھ شروع کیا کرتے تھے۔ آگے چل کر حاضرین کو سوالات کا موقع دیا جاتاتھا۔ انہیں ایسے نکات کی بابت استفسار کیلئے کہا جاتا جو انکی سمجھ میں نہ آئے ہوں۔ ایسا دالانوں کے اندر چھوٹے اور متوسط درجے کے علمی حلقوں میں زیادہ دیکھنے میں آتاتھا۔
    درس کی شروعات کے چند لمحوں بعد مدرس کا کوئی خادم یا شاگرد اس جگہ جائے نماز یا قالین بچھا دیتا جہاں مدرس کود رس دینا ہوتا تھا۔ ایسا اس لئے کیا جاتا تاکہ مسجد کے صحن میں پڑی ہوئی کنکریوں کی ساخت سے مدرس کو اذیت نہ ہو۔
    مدرس کبھی کبھی درس کے شروع میں کسی پرانے شاگرد کو اپنے سامنے بیٹھنے کیلئے کہتے، بعض اوقات پرانے درس کا خلاصہ بیان کر تے ۔ کبھی کبھارمدرس اپنے درس کی شروعات بڑے خوبصور ت جملوں سے کرتے۔ وہ درس کی اہمیت کو بیان کر تے اور پھر طلباء سے درس دہرانے کیلئے کہتے۔
    اگر درس کا تعلق قانون سازی سے ہوتا تو طالب علم کسی بھی مدرس کے سبق میں شریک ہوجاتا البتہ اگر فقہ کا درس ہوتا تو طالب علم اپنے ہم مسلک مدرس کا انتخاب کرتا کہ فقہی درس ائمہ اربعہ کے حساب سے پڑھائے جاتے تھے۔
    ڈاکٹر عبدالوھاب ابو سلیمان بتاتے ہیں کہ 14ویں صدی ہجری میں مسجد الحرام ہر مسلک کے علماء و فقہاء اور مدرسین کی کثیر تعداد کے حوالے سے مشہور و معروف تھی۔ اس زمانے میں طلباء بھی کثیرتعداد میں ہوتے اور تعلیم کے فن میں بھی تنوع و کثرت پائی جاتی تھی۔
    کہہ سکتے ہیں کہ مسجد الحرام اس زمانے میں اوپن یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی جہاں تعلیم کے دروازے سب کے لئے کھلے ہوئے تھے، جہاں تمام علوم و فنون کے درس ہوتے تھے۔ جہاں شرکت کیلئے آنے والے آزاد ہوتے تھے ، جہاں علم کے طلباء اور عام لوگ کسی شرط، کسی قید ، کسی پابندی، کسی عمر او رکسی معیار کے بغیر شریک ہوسکتے تھے۔ مسجد الحرام کی علمی مجلسوں میں نوجوان بھی ہوتے اور بوڑھے بھی۔ اساتذہ بھی مضامین کے انتخاب  میں آزاد ہوتے تھے۔
    جہاں تک اوقاتِ تدریس کا تعلق ہے تو ہر نماز کے بعد ہر روزطلباء اساتذۂ کرام کے اطراف منظم شکل میں جمع ہوجاتے تھے۔ اگر کوئی شخص مسجد الحرام میں تدریس کا ایک واضح تصور لینا چاہتا تو اسکے لئے اتنا کافی تھا کہ وہ حرم شریف کے دالانوں اور صحنوں کا روزانہ 5 مرتبہ چکر لگالے۔ ہجری سال کے پہلے 7ماہ کے دوران دالانوں میں گھوم پھر کر اسکااندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ 8ویں مہینے شعبان  سے ذی الحجہ تک مسجد الحرام میں تدریس اور مدرسین کا نظام بڑی حد تک بدل جاتا تھا۔

مزید پڑھیں:- - - -سعودی عرب اور اسلام کا پانچواں رکن

شیئر: