Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خالق کی نافرمانی ، فطرت میں پگاڑ کی علامت

جس طرح بچہ اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے، اسی طرح انسان کا اپنے خالق سے رجوع کرنا اس کی جبلت کے مطابق ہے
    حج بیت اللہ الحرام ارکان اسلام میں سے ایک ہے ۔ہر صاحب استطاعت مسلمان پر اللہ تعالیٰ نے اسے عمرمیں ایک مرتبہ فرض کردیاہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘(آل عمران97)۔
    حج کا مطلب زیارت کا قصد کرنا ہے۔اسلام اجتماعیت کا دین ہے۔اسی اجتماعیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ باجماعت فرض کی ہیں تاکہ ایک محلے میں رہنے والے مسلمان دن میں کم از کم 5مرتبہ ایک جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضرہوں اور ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں جبکہ جمعہ کی نماز ہفتے میں ایک مرتبہ باجماعت فرض کی گئی ہے تاکہ مسلم جماعت کی کثیر تعداد جمع ہو اور باہم دلچسپی کے امور میں تبادلہ خیال کریں ۔سال میں ایک مرتبہ حج کی صورت میں عظیم عالمگیر اجتماع کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ہر مسلمان کو اگر استطاعت رکھتا ہو شرکت کرنی چاہئے ۔دنیا کے ہر گوشے میں مقیم مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہ امت کے لئے اجتماعی ٹریننگ کورس ہے جس سے مسلمانوں کو گزارا جاتا ہے۔
    حج کے کئی ایمانی معانی اور مفہوم ہیں۔حج کا فریضہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیاں یاد دلاتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ کو کون نہیں جانتا۔یہودی اور عیسائی بھی آپؑ کی بزرگی کے قائل ہیں۔ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیؑ،حضرت محمد ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو خصوصی عنایات عطا فرمائیں وہ دنیا میں کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’امام الناس ‘‘کا خطاب عطا فرمایا۔آپ ؑ کو اپنا خلیل یعنی دوست بنایا۔آپؑ اپنی ذات میں امت تھے یعنی اصلاح و تبلیغ کا جو کام پوری امت کے کرنے کا تھا آپؑ نے اکیلے اسے انجام دیا۔حج کے شعائر اور مناسک ادا کرتے ہوئے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرنی چاہئے۔عمر میں ایک مرتبہ حج فرض کرنا حکمت الہٰی کا متقاضا ہے ورنہ اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہر سال حج فرض کرسکتا تھامگر اس کے علم میں تھا کہ اس کے بندے اس کے متحمل نہیں ہوسکتے نیز حج کے مناسک کو شعور کے ساتھ ایک مرتبہ ادا کرنا کافی ہے کہ اس کے اثرات ساری عمر باقی رہتے ہیں۔
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے انس اور جن کو سوائے عبادت کے کسی اور مقصد کے لئے پیدا نہیں کیا۔انسانیت کی جبلت میں خالق کی عبادت موجود ہے۔اس کی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی گردن اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے جھکادے۔اس کے تحت الشعور میں یہ بات پنہاں ہے کہ اسے مافوق الفطرت طاقت سے مدد طلب کرنی چاہئے کہ اس کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتا۔خالق ومالک کی عبادت کرنے سے اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔جس طرح بچہ اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے اور اس کا یہ لپکنا فطری اور اس کی جبلت کے مطابق ہے اسی طرح انسان کا اپنے خالق سے رجوع کرنا اور اس سے مدد و استعانت طلب کرنا اس کی جبلت کے مطابق ہے۔وہ اپنے دل و دماغ سے خالق و مالک کو نہیں نکال سکتا ۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اس کی فطرت کی بگاڑ ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ خالق ومالک کی عبادت انسان کی جبلت میں موجود ہے لہذا انسان کے اندر کی یہ فطرت اظہار کے مواقع چاہتی ہے اور جب انسان اپنے حقیقی خالق ومالک کو پہچاننے میں ٹھوکر کھاتا ہے یا اسے انبیائے کرام میں سے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی تو وہ بتوں ،
 دیویوں اور پتھروں کو پوج کر جبلت کی تسکین کا جھوٹا سامان کرتا ہے۔قرآن مجید خود ذکر(یاد)اور تذکرہ (یادداشت)کہتا ہے۔انبیائے کرام کو مذکر(یاد دلانے والے)اور ان کے کام کو تذکیر(یاددہانی)قرار دیتا ہے ۔انبیائے کرام علیہم السلام ، آسمانی کتب اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اس چیز کو ابھارتے ہیں اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود ہے ۔
    انسان کچھ اس طور واقع ہوا ہے کہ مجرد غیب پر ایمان لانے کے لئے اس کی فطرت جلدی تیار نہیں ہوتی ۔وہ اپنے خالق اور مالک کو شعوری طور پر محسوس کرنا چاہتا ہے۔وہ آخرت سے پہلے دنیا میں اپنے خالق کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیںکہ اہل ایمان آخرت میں اپنے رب کو دیکھیں گے۔اس مفہوم کی کئی آیات قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں جبکہ رسول اکرم کی متعدد احادیث میں بھی اس کے حوالے ملتے ہیں۔صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم نے چودھویں کا چاند دیکھ کر فرمایا کہ تم لوگ جس طرح چودھویں کا چاند دیکھ رہے ہو اسی طرح اپنے رب کو دیکھو گے۔مسلمانوں کا ایمان ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے مگر فطرت انسانی دنیا میں بھی اپنے رب کا قرب چاہتی ہے۔دنیا میں اس کی علامتیں اور نشانیاں دیکھ کر رب کی عظمت کو یاد کرنا چاہتی ہے ۔شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بعض چیزوں کو اپنی علامت اور نشانی کے طور پر منتخب کرلیا ہے۔سورہ بقرہ ، آیت 158میں ارشا دہوا’’یقینا صفااور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘شعائر ، شعیرہ کا جمع ہے جس کا مطلب نشانی ہے۔انسان اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتا مگر اس کی نشانیاں دیکھ کر اطمینان حاصل کرسکتا ہے۔صفااور مروہ کے علاوہ دیگر بہت سی چیزیں ہیں جو’’شعائر اللہ ‘‘ ہیں۔شعائر کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں مگر یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی یاد دلاتے ہیں۔صفامروہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قراردیا ہے۔یہ 2پہاڑ مکہ مکرمہ میں واقع ہیں جن کے درمیان ایک وادی ہے۔یہاںسے تقریباً5سو فٹ کی دوری پر اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔صفااور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہمیں بی بی ہاجرہؑ کی یاد دلاتا ہے ۔ایک اکیلی خاتون جو اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ اس بے آب وگیاہ وادی میں تھی مگر انہیں اللہ تعالیٰ پر کس قدر بھروسہ تھا کہ وہ اُنہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔اللہ تعالیٰ نے بی بی ہاجر ہ ؑ کے اس عمل کوایسا پسند کیا کہ اسے(سعی کو) نہ صرف حج اور عمرہ کے مستقل اعمال میں شامل کرلیا بلکہ انہیں اپنی نشانی اور شعائر قراردیا۔اسی طرح کعبۃ اللہ اور حجر اسود سمیت حج کے دیگر مقامات ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کمال قدرت کی یاد دلاتے ہیں۔
    بیت اللہ کے گرد طواف کرنا اور حجر اسود کا استلام کرنا فطرت انسانی میں اس خواہش کی تسکین ہے کہ وہ اپنے خالق کو پانا چاہتا ہے اور اسے محسوس کرنا چاہتا ہے۔انسان اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے سعی اور دوڑ نا چاہتا ہے ۔اس کے ان جذبات کی تسکین صفااور مروہ کے درمیان سعی کرنے اور دوڑ لگانے سے پوری ہوتی ہے۔مناسک حج ادا کرتے وقت انسان اعلان کرتا ہے کہ اس کا جینا ، مرنا اور اس کی تمام مراسمِ عبودیت اللہ وحدہ لاشریک کے لئے ہیں ۔وہ اپنی راحت اور آرام کو بھول کردرویشانہ صفت اختیار کرتے ہوئے قرب الہٰی کی جستجو کرتا ہے۔
    مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہوئے انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ زیب وزینت اور چکاچوند والی دنیا سے نکل کر کسی اور دنیامیں آکر آباد ہوا ہے جہاں اسے ہر ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔عرفات کے میدان میں ایک ہیبت ناک منظر انسان کے پورے وجود کو غیر مرئی طاقت کی طرف کھینچ لیتا ہے۔سورہ یاسین کی آیت 51کا صحیح مفہوم سمجھنا ہے تو میدان عرفات میں کھڑے لوگوں کو دیکھئے ۔ آیت کریمہ کا مفہوم ہے’’پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیشی کے لئے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔‘‘میدان عرفات کا اجتماع ہمیں یوم الحشر کے اجتماع کی یاد دلاتا ہے۔
    ہم اسی دنیا میں آخرت میں رونما ہونے والے ایک منظر کی جھلک دیکھتے ہیں۔ میدان عرفات میں اپنی تمام تر دنیاوی امتیازات سے پاک ہوکر کھڑے ہونے والے مسلمان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہیں اسی طرح ایک دن اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے جو تمہارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔اس دن گناہوں سے توبہ نہیں کی جاسکتی مگر میدان عرفات میں آخرت کے اس منظر کو ذہن میں رکھ کر ہم اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاکر دعا کرتے ہیں اور اپنے کئے پر بچھتا تے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - -ظاہری اور باطنی تطہیر کا وسیلہ ، حج

شیئر: