Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’لوگ مر جاتے ہیں، ثقافتیں زندہ رہتی ہیں ‘‘

کراچی میں 9ویں عالمی اردو کانفرنس ، مختلف عناوین کے تحت اجلاس ، مشاعرہ بھی منعقد ہوا ، معروف ادیب اور دانشور شمیم حنفی کا آڈیوخطاب

 

رپورٹ و تصاویر:سہیل جمالی ۔ کراچی

9ویں عالمی اُردو کانفرنس آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ہوئی۔یہ کانفرنس 4روز تھی ۔ افتتاحی اجلاس سے معروف ادیب اور دانشور شمیم حنفی نے دہلی سے براہ راست آڈیوخطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ادب کو سرحدوں کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ مزاحمتی ادب دونوں طرف لکھا جارہا ہے۔اُردو ایک فرقے یا قوم کی زبان نہیں، اس کے اثرات ہر زبان کے لوگوں نے قبول کئے۔ فارسی اور عربی کا اُردو سے روحانی رشتہ ہے۔ کانفرنس کے چیئرمین محمد احمد شاہ نے کہاکہ یہ کانفرنس زبانوں سے محبت کرنے والوں کا ایک قافلہ ہے۔ ساری زبانوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے۔

ہم قومی ثقافتی کانفرنس کرنے جارہے ہیں جو فروری میں ہوگی۔ ہندوستانی ادیب خوف کی وجہ سے نہیں آسکے۔ آصف اسلم فرخی نے ’’ہمارا ادب اور ہماری دُنیا‘‘ کے موضوع پر اپنے کلیدی مقالے میں کہاکہ بڑوں کے چلے جانے نے ہمارا قد اونچا کردیا ۔ فیض اورامنِ عالم کے موضوع پر مجلس صدارت سے نامور شاعرہ زہرہ نگاہ نے کہا کہ لوگوں کو فیض سے محبت تھی اور فیض لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ قید ِتنہائی میں کبھی انہوں نے اپنی تکلیف کا ذکر نہیں کیا۔فیض صاحب کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا بقول مشتاق احمد یوسفی،حالی، رشید احمد صدیقی اور فیض کی شرافت کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ ممتاز سیاستدان میر حاصل بزنجو نے کہا کہ فیض صرف درد اور محبت کے شاعر نہیں، سماج میں مزاحمت کرنے والوں کے لیڈر تھے۔ اگر وہ شاعر ہوتے تو جیل میں نہیں ہوتے۔ سب سے اچھے شعر انہوں نے جیل میں لکھے۔

فیض صاحب کے جیل کے ساتھی ظفر اللہ پوشنی نے کہاکہ میں اور سجاد ظہیر فیض کے ساتھ ہی جیل میں رہے۔ میرا سارا رشتہ فیض کے ساتھ جیل سے شروع ہوتا ہے۔ عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے سیشن میں ’’ذکرِیارچلے‘‘ کے عنوان سے شیما کرمانی کی تحریکِ نسواں کے زیر اہتمام فیض احمد فیض کی زندگی اور شاعری کے بارے میں تمثیل پر مبنی ایک شاندار پرفارمنس پیش کی گئی ۔ نعت طیبہ اور ہماری روایت کے سیشن میں پروفیسر سحر انصاری نے کہاہے کہ نعت گوئی حمد و نعت مبارکہ لکھنے والوں کے لئے انتہائی معتبر ہے ہمارے نعت پاک لکھنے والے بہت بڑے بڑے شاعر ہیں اور نعت گوئی پر ابھی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ سیشن سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر جہاں آراء لطفی، عزیز احسن، شاداب احسانی، تنظیم الفردوس،عنبرین حسیب عنبرنے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ حمد و نعت طیبہ کا سلسلہ ہمارے ہاں 800سال سے جاری ہے جس میں تمام شعراء نے اپنا اپنا کلام کہا ہے جس میں غالب، بہادر شاہ ظفر سمیت دیگر شعراء شامل ہیں۔ اس سیشن میں حاضرین نے جس بات کو شدت سے محسوس کیا وہ ماہر القادری کا ذکر نہ ہونا تھا۔ زبان و ادب کا فروغ اور نصاب تعلیم کے سیشن میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ہدف حاصل کرنے کے لئے ملک میں تعلیمی ایمر جنسی لگانے کی ضرورت ہے تعلیمی پالیسیاں ٹھیک ہیں مگران پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیںبھی تعلیم کے لئے کام کرنا چاہئے تا کہ سوسائٹی کو تعلیم سے روشناس کیا جاسکے۔

دوسرے روز کا تیسرا اجلاس بعنوان’’ چہ مستانہ می رود‘‘ ہوا ۔’’ غالب سے اقبال تک‘‘ پرلیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر نعمان الحق نے کہا کہ اقبال کو غالب پر فوقیت حاصل ہے۔ غالب اور اقبال کی پہچان مشترکہ جدید شاعری ہے۔ جدید شاعری کی روایت میں حالی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دوسرے روز چوتھے اجلاس کا موضوع ’’نئے سماجی ذرائع اور ابلاغ کی صورتحال‘‘تھا ۔ اس سیشن کے شرکاء میں رضا علی عابدی ، غازی صلاح الدین، مظہر عباس، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر نعمان نقوی، وسعت اللہ خان، ڈاکٹر محمدایوب شیخ شامل تھے۔ اس موقع پر سینیئر براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے کہا کہ سوشل میڈیا کو پرکھنے کی ابھی ہمارے یہاں ابتدا ہے اس لئے برتنے کا فن بھی نہیں آتا۔سوشل میڈیا نے بہت سے پرانے رشتوں کو جوڑ دیا ہے۔ سینیئر صحافی وسعت اللہ خان نے کہاکہ سوشل میڈیا کا ایک بڑا اور اہم فائدہ یہ ہوا کہ اس طرح غیر پسندیدہ لوگوں کی زبان بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیاگیا ۔ پاکستانی زبانیں اور قومی ہم آہنگی پر ڈاکٹر قاسم بگھیونے کہا کہ لوگ مر جاتے ہیں، ثقافتیں زندہ رہتی ہیں۔ ڈاکٹر نذیرتبسم نے کہاکہ سڑکیں افراد نہیں بناتے، قافلے بناتے ہیں۔ ہم اُردو سے محبت کرتے ہیں یہ رابطے کی زبان ہے۔ عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن چار کتابوں کی رونمائی کی گئی جس میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب ’’خاک کی مہک‘‘ ، مبین مرزا کی کتاب ’’زمین اور زمانے‘‘ ، ڈاکٹر حسن منظر کی کتاب ’’حبس‘‘ اور خالد احمد انصاری کی ’’راموز‘‘ شامل تھیں۔ تیسرے روز بعنوان ’’احمد ندیم قاسمی صد سالہ تقریب‘‘سے پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر قاسم بگھیو ، نیرحیات قاسمی، احمد شاہ نے خطاب کیا۔نظامت کے فرائض عرفان جاوید نے انجام دیئے۔

ناہید قاسمی نے کہاکہ احمد ندیم قاسمی انسانوں سے محبت اور پیار کرتے تھے ان کا سب کے ساتھ انسانیت کارشتہ تھا ۔ میں نے اپنے والد کو ایک محبت کرنے والا باپ پایا۔وہ پڑھائی سے لے کر عملی زندگی تک ہماری رہنمائی کرتے رہے۔ ’’ثقافتی ادارے اور عصری تقاضے ‘‘کے عنوان سے پی ٹی وی کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شاعر دہشت گرد نہیں، تہذیبوں کا عکاس ہوتاہے اور اپنی شاعری میں ثقافتوں کو اُجاگر کرتا ہے۔ حکومت نے تمام ثقافتی اداروں میں میرٹ پر تعیناتی کی ہے۔ ’’اردو کی نئی بستیاں‘‘ کے عنوان پر برلن، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی نے کہا کہ جس زمانے میں جرمنی میں سجادظہیر، فیض احمد فیض، سردار جعفری آئے تو ہم نے کوشش کی کہ ان کی ملاقاتیں جرمن ادیبوں سے کرائی جائیں،جس میں ہم کافی کامیاب رہے۔

سعید نقوی نے کہا کہ ہم اس وقت امریکہ کے3 شہروں نیویارک ،ہوسٹن اور شکاگو میں حلقہ اربابِ ذوق کے تحت اُردو کے تناظر میں پروگرام کرتے رہتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت امریکہ میں سیکنڈ زبان کے طور پر اسپینش کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے، ہمیں اُردو کا کھونٹا زیادہ مضبوطی سے گاڑنے کی ضرورت ہے۔ عطاء الحق قاسمی سے ملاقات ایک ایسا پروگرام تھا جو برسوں یاد رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور زندہ لوگوں کا شہر ہے کراچی بھی زندہ دلوں کا شہر ہے مگر تھوڑا کم ہنستا ہے۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ یہ بہت ہی اہم حصہ ہے کانفرنس کے شاعر انور شعور کے لئے اعترافِ کمال ہواہے جس سے اس کانفرنس کی عزت میں اضافہ ہواہے۔ یارک شائر ادبی فورم بیرونِ ملک میں بڑا متحرک ہے اور بہت ساری مشاعرے اور ادبی تقریبات منعقد کرتا ہے ۔ کانفرنس میں روایتی مشاعرہ بھی ہوا۔ صدارت رسا چغتائی نے کی جبکہ شعراء میں سحر انصاری، کشور ناہید، پیرزادہ قاسم، انور شعور، امدا دحسینی، عطاء الحق قاسمی، فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، یاسمین حمید، عشرت آفرین، فاطمہ حسن، صابر ظفر، لیاقت علی عاصم، انعام الحق جاوید، احمد نوید، احمد فواد، عباس تابش، نذیر تبسم، سعادت سعید، شکیل جاذب، فاضل جمیلی،صغراصدف، ریحانہ روحی، عقیل عباس جعفری، شہناز نور، اجمل سراج، عنبرین حسیب عنبر، یشب تمنا، باصر کاظمی، غالب ماجدی، نجمہ عثمان،اے ایچ خانزادہ، غزل انصاری شامل تھے جبکہ ٹیلیفون پر ہندوستان سے خوشبیر سنگھ شاد، منیش شکلہ اور رنجیت سنگھ چوہان نے اپنا کلام سنایا۔ یادِ رفتگاں کے سیشن میں اُردو کی نامور شاعرہ زہرہ نگاہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اپنے محسنوں کو یاد رکھنا ایک اچھی روایت ہے۔ اجلاس میں ممتاز صاحبانِ علم و دانش نے ڈاکٹر جمیل الدین عالی، مصطفی زیدی، ڈاکٹر اسلم فرخی، فاطمہ ثریا بجیا، اسلم اظہر، آغا سلیم اور اظہر عباس ہاشمی کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ فلم، ٹیلی وژن،اسٹیج اور عصرِحاضر کے موضوع پر پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی فرہاد زیدی نے کہا کہ زندگی میں سے فلم، ٹی وی ریڈیو کو نکال دیں تو ہم پرانے زمانے میں چلے جائیں گے۔

اختتامی اجلاس میں ہندوستان سے شاعر و ادیب ابوالکلام قاسمی نے ٹیلیفون پر اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے اور شمیم حنفی کو بھی اس عالمی اُردو کانفرنس کا حصہ بننا تھا اور ہمارے ویزے بھی لگ گئے تھے لیکن کچھ سیاسی اور سماجی صورتحال کے باعث ہم شرکت کرنے سے قاصر رہے جس کا ہمیں نہایت ہی افسوس ہے۔ انور مقصود کے پروگرام خدا حافظ میں ہال کھچا کھچ بھرا رہا۔ انور مقصود نے اپنے مخصوص انداز میں مزاحیہ جملے پڑھتے ہوئے کہاکہ اُردو سکھانی ہے تو ملک ریاض کو بلایا جائے۔آرٹس کونسل کراچی کی عمارت بھی ٹھیک ہوجائے گی۔انہوںنے کہا کہ آمر کے سامنے جو لکھنے والے بولتے تھے، ان کی زبان قلم کردی جاتی تھی۔

چینل مالکان آج کل اشتہاری ہیں ۔ کانفرنس کے آخری روز متفقہ قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ قراردادوں میں کہا گیا کہ امن انسانی معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ہر ممکن صورت میں امن کی کوششوں کو فروغ دیا جائے۔ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ بند کی جا ئے، بات چیت کے عمل کوفوری اور مؤثر سطح پر شروع کیا جائے۔ہم ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور فنکاروں کے روابط کی مضبوطی پر زور دیتے ہیں ۔ اردو کوسرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اوروزیر اعظم پاکستان نے بھی اس کا اعلان کیا ہے لیکن ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے۔ بیرونی ممالک کی 9جامعات میں اُردو چیئر خالی ہے، ان پر اساتذہ کی تعینات

شیئر: