Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی امریکی تعلقات ....قصہ کیا ہے؟

جہاد الخازن ۔ الحیاة 
ان دنوں سعودی عرب پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ امریکہ میں کچھ لوگ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا معیار تبدیل کرنے کے مطالبے کررہے ہیں۔ یہاں میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتاہوں کہ پوری دنیا کو سعودی عرب کی ضرورت ہے اور وہ دنیا میں کسی بھی اتحادی کا محتاج نہیں۔
میں گزشتہ ہفتے ویانا میں ہونے والی اوپیک کانفرنس سے اپنی بات شروع کرنا چاہوں گا جہاں تیل پیدا کرنے والے ممالک نے جن میں اوپیک کے غیر رکن بھی شامل ہیں ،یومیہ تیل پیداوار 12لاکھ بیرل کم کرنے کی منظوری دی۔ اسکے تحت اوپیک کے ممبران یومیہ 8لاکھ بیرل اور غیر ممبر ممالک 4لاکھ بیرل کم تیل نکالیں گے۔ سعودی وزیر توانائی خالد الفالح نے کہاکہ انکا ملک اکتوبر کے ریکارڈ کے مقابلے میں یومیہ 5لاکھ بیرل کم تیل نکالے گا جبکہ روس غیر رکن ممالک میں تیل پیداوار میں کمی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہوگا۔ ویانا میں ا وپیک کا اجلاس تیل مارکیٹ میں حد سے زیادہ رسد کے بعد منعقد کیاگیا۔ اسکی وجہ سے 2 ماہ کے دوران تیل کے نرخ ایک چوتھائی سے بھی کم ہوگئے۔ 
ایک عرب کالم نگار نے جس کے سعودی عرب کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں، نے تحریر کیا جس کا عنوان تھا ”سعودی عرب ایٹم بم کیوں تیار کریگا؟“۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات ہورہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے یہاں ایٹمی تنصیبات کے لئے مطلو ب ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر بضد ہے۔ سعودی عرب اس سے قبل انتباہ دے چکا تھا کہ وہ ایران کی جانب سے ایٹم بم کی تیاری کی کوششوں کا جواب ایٹم بم تیار کرکے دے گا۔ میں سعودی عرب کے اس موقف کی نہ صرف تائید کرتا ہوں بلکہ اس میں یہ اضافہ بھی کرنا چاہوں گا کہ سعودی عرب ، مصر اور امارات ایران بلکہ اسرائیل کے ایٹم بموں سے نمٹنے کیلئے ایٹم بم تیار کریں۔ اسرائیل ایٹم بم کا مالک امریکہ سے ایٹمی مواد چوری کرکے ہی بنا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ نے درپردہ اسے ایٹم بنانے میں کام آنے والا سامان مہیا کیا ہو۔
امریکہ ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے سے الگ ہوچکا ہے۔امریکہ میں کئی لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایران خفیہ طور پر ایٹم بم بنا رہا ہے۔ امریکی وزیر توانائی ایٹمی تنصیبات کیلئے سعودی عرب سے بات چیت کررہے ہیں۔ امریکی وزیر توانائی10تا 15سال ایٹمی ایندھن کی تیاری کے حوالے سے سعودی عرب پر بعض پابندیوں پر مشتمل معاہدہ تجویز کررہے ہیں۔ کئی لوگ ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ سعودی عرب پر امریکی مفادات تھوپنے کی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات نہ آج ہوگی اور نہ ہی کل۔ متعدد مفادات میں امریکہ اور سعودی عرب مشترک ہیں۔ بہت سارے مفادات میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔سعودی عرب اپنے ملک کے مفادات کیلئے کوشاں ہے نہ کہ ٹرمپ کے انتخابی منشور کیلئے۔ ٹرمپ سے تعلقات اچھے ہیں، اچھے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: