خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں مدرسے میں زیرتعلیم ایک کم سن طالب علم کی مبینہ طور پر تشدد کی وجہ سے موت واقع ہوگئی ہے۔
پولیس کے مطابق 21 جولائی کو خوازہ خیلہ کے مدرسے کے طالب علم فرحان کو نیم بے ہوشی کی حالت میں قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گیا۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ طالب علم پر تشدد کیا گیا تھا اور اس کے جسم پر تشدد کے واضح نشان تھے۔
مزید پڑھیں
-
افغانستان میں سکول کی تعلیم سے محروم لڑکیاں مدرسہ جانے پر مجبورNode ID: 750771
-
صدر نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد مدرسہ رجسٹریشن بل پر دستخط کر دیےNode ID: 883644
13سالہ فرحان کی ہلاکت کی خبر کے بعد پورا علاقہ سراپا احتجاج بن گیا۔ عوام نے مدرسے کا گھیراؤ کرکے استاد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ عوام کی جانب سے دو روز تک مدرسے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرکے کم سن طالب علم کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔
مقامی پولیس نے ابتدائی رپورٹ درج کرکے دو ملزم گرفتار کر لیے مگر مرکزی ملزم فرار ہو گیا۔
ایمان شاہ اسی مدرسے کے طالب علم ہیں اور ان کا تعلق سوات سے ہے، انہوں نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا کہ ’مدرسے میں اساتذہ کا طالب علموں پر تشدد معمول تھا۔ آئے روز کسی طالب علم کو معمولی غلطی پر کمرے میں بند کرکے سزا دی جاتی۔‘
طالب علم ایمان شاہ کے مطابق وقوعہ کے روز فرحان پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا تھا۔
’فرحان نے مجھ سے پانی مانگا میں جب اس کے قریب گیا تو مدرسے کے استاد نے خاموش رہنے کی دھمکی دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام طلبہ کو ڈرایا گیا تھا۔ کوئی طالب علم اگر زبان کھولتا تو اسے بھی سزا دی جاتی تھی۔ مدرسے میں چابک اور ہتھکڑیاں بھی رکھی گئی تھیں۔‘
مقتول فرحان کے اہل خانہ کے مطابق ان کا بچہ اپنے شوق سے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے گیا تھا۔ ’ہمیں کیا خبر تھی کہ مدرسے میں تعلیم دینے کے بجائے اس پر تشدد کیا جارہا تھا۔‘

لواحقین نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے انصاف کی اپیل اور مرکزی ملزم کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
مدرسے کے ناظم سمیت 10 افراد گرفتار
ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد عمر خان نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ’کم سن طالب علم کے قتل کے بعد مدرسہ کے مہتمم سمیت چار افراد پر چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ نامزد ملزموں میں سے دو گرفتار ہیں، تاہم دو ملزم مفرور ہیں جن کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
ڈی پی او سوات کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 10 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں مدرسے کا ناظم بھی شامل ہے۔ ملزموں سے مختلف پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔
’مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تھا‘
ڈسٹرکٹ پولیس افسر سوات محمد عمر خان کے مطابق خوازہ خیلہ کا یہ مدرسہ بغیر رجسٹریشن کے چلایا جا رہا تھا جس کو واقعہ کے فوراً بعد سیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مدرسے میں زیرتعلیم 160 طالب علموں کو بحفاظت ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
مدرسے میں دیگر بچوں پر بھی تشدد کے ثبوت ملے ہیں جس پر آٹھ مزید اساتذہ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

مدرسے سے لاٹھیاں اور زنجیر برآمد
ضلعی پولیس افسر محمد عمر خان کا کہنا تھا کہ مدرسے میں دیگر بچوں پر تشدد کے ثبوت ملے ہیں جن کو ڈنڈوں سے مارا جاتا تھا، مدرسے کے تہہ خانوں سے لاٹھیاں اور زنجیریں بھی برآمد ہوئی ہیں جس سے شبہ ہوتا ہے کہ یہاں طالب علموں کو ٹارچر کیا جاتا تھا۔
ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ
کم سن بچے کی ہلاکت کی انکوائری کے لیے اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ مدرسے کا دورہ کیا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مدرسے میں بیشتر بچوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ بچے ذہنی طور پر بھی پریشان تھے۔