Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی حکومت یا مڈٹرم الیکشن

****سید شکیل احمد***
             ایسی کیا بات ہوئی کہ وزیر اعظم عمر ان خان نے 3 ماہ پو رے ہوتے ہی درمیانی مدت کے انتخابات کے شیر ے میں انگلی ڈبو کر اسے دیو ار پر مل دیا لیکن نہ تو مکھیا ں بھنبھنا ئیں اور نہ کسی دیو ار کو چاٹا ، لیکن بات تو تعجب خیز ضرور ہے کہ اس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مضبو ط مر کز کے پر وانے چاہتے ہیں کہ جتنا جلد ہو سکے اٹھارویں ترمیم کا چراغ گل کردیا جائے۔ سابق صدر ایو ب خان کے دور میں مضبوط مر کز کا فلسفہ نہ صرف نا فذتھا بلکہ بار بار ا س آمو ختہ کے طو ر پر دہر ایا جا تا تھا ، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ پا کستا ن مضبوط مر کز کے فلسفہ کی آڑ میںکھیلے گئے سیا سی داؤپیچ کی وجہ سے ہی دولخت ہو ا۔ اگر قائد اعظم کے فلسفہ صوبائی خود مختاری پر عمل ہو تا یا کم از کم صوبو ں کو 56ء کے آئین کے مطابق ہی خودمختاری حاصل ہو تی تو پاکستان کے پانچو ں بازو ایک نا قابل تسخیر قوت ہوتے ۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ لا ڈلا ملک میں صدراتی نظام لا نے کی سعی میں ہے اور چاہتا ہے کہ جب تک اٹھارویں ترمیم کی آڑ ہے اس وقت تک خواہشات کو پو را نہیںکیا جا سکتا اور پارلیمنٹ میں 2تہائی اکثریت کی ضرورت ہے تاکہ خواہشات کی تکمیل کی جا سکے چنانچہ درمیانی مدت کا خواب اسی لیے دکھا یا جارہا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہو مگر خان صاحب کے پاس آج بھی اختیا رات کی کمی نہیں ہے کیو نکہ جن صوبو ں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ جب دل کر تا ہے وہاں کی صوبائی کا بینہ کے اجلا س کی صدارت کر تے ہیں ، صوبائی کا بینہ میں تما م ارکا ن اجا زت کے بعد رکھے گئے ہیں اور ان کی ایسی ڈانٹ ڈپٹ ہو تی ہے کہ جیسا کہ پر نسپل صاحب نا لا ئق طلبا ء کی سرزنش کر تے ہیں ، جیسا کہ ابھی حال میں خان صاحب نے اعلا ن کیا کہ جس وزیر نے ڈیو ٹی پوری طر ح نہ دی اس کو گھر بھیج دیا جا ئے گا۔ کار گزاری پر بھی بھر پور نظر ہے ، گویا کہ پی ٹی آئی کے وزراء کا بینہ میں نہیں بلکہ کمر ہ امتحان میں تشریف فرما ہیں ۔ 
              یہ بات ازبر ہو نا چاہیے کہ اگر ایو ب خان کے دور میں مضبوط مر کز کے فلسفہ کو نا فذنہ کیا جا تا بلکہ قائد اعظم کے مطابق صوبوں کو خودمختاری حاصل ہو تی تو شیخ مجیب الرّحما ن کو کبھی 6 نکا ت پیش کر نے کی ہمت نہ ہو تی۔ 73ء کا آئین کئی ترامیم کے باوجو د متفقہ ہے اور جب یہ تشکیل پا رہا تھا تو اس وقت کی حزب اختلا ف نے ملکی حالا ت کے پیش نظر اس امرکو قبول کر لیا تھا کہ امو ر خارجہ ، دفا ع ، کر نسی اور تجارت سے مطالق معاملا ت کو کنکرنٹ فہر ست میں شامل رکھا جا ئے مگر دس سال کے بعد اس فہر ست کا دوبارہ جا ئزہ لیا جا ئے گا مگر 10 برس بیت گئے لیکن اس آئینی ضرورت کو ملحوظ خاطر نہیںرکھا گیا تاہم پی پی کے گزشتہ دور میں 15؍اپریل 2010کو پارلیمنٹ کی دوسری بڑی جما عت کے تعاون سے 342ارکا ن پارلیمنٹ کے مقابلے میں 282کی 2تہا ئی اکثریت سے اٹھارویں ترمیم منظو ر کی گئی جس کے تحت صوبہ شما ل مغربی سرحدی صوبہ کا نا م خیبر پختونخوا  رکھا گیا ، اور یہ بھی قرار پایا گیا کہ آئین کو سردخانے میں ڈالنابھی آئین کو اکھا ڑپھینکنے کے مترادف قرارپا ئے گا جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری ہو گی۔ اس ترمیم کے ذریعے مشترکہ مفادات کی کو نسل بھی تشکیل بھی از سر نو کی گئی جس میں وزیر اعظم کو ا س کا سربراہ قرار دیا گیا ، اور ارکان میں تما م صوبائی وزراء اعلیٰ شامل کیے گئے اور ان صوبو ں کا ایک ایک نا ئند ہ بھی شامل کیا گیا ۔ مشرف نے کسی بھی شخص کو تیسری مر تبہ وزیر اعظم نہ بننے کی شر ط عائد کر دی تھی وہ بھی ختم کر دی گئی ۔
              اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے صوبو ںکو جو خود مختاری حاصل ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ملک کے استحکا م ، خوشحالی ، ترقی ، یکجہتی اور نا قابل تسخیر اتحاد کے لیے از بس ضروری ہے ۔اٹھا رویں ترمیم کے بعد ون یونٹ اس لیے ممکن نہیں رہا کہ اس میں یہ بات شامل ہو گئی ہے کہ آئین کو سرد خانے میں ڈالنا آرٹیکل 6 کے تحت آئین سے غداری کے مترادف ہے ، جس کا مطلب واضح ہے کہ اب کوئی بھی طا قت آئین کو پس پشت نہیں ڈالا سکتا ۔
        اس کے علا وہ پہلے آئین میں تھا کہ58-2B کے تحت صدر مملکت جب چاہتا اسمبلیاں تحلیل کر دیتا ، مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم بھی اب ایسا نہیں کر سکتا ہے اس کے لیے صوبو ں کے وزراء اعلیٰ کی رضا مندی ضروری ہے۔ اس وقت درمیا نی مدت کے انتخابات کے لیے یہی رکا وٹ ہے کہ کے پی کے اور پنجا ب میں تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہا ں کے وزراء اعلیٰ تو شاید خان صاحب کی بات مان جائیں کیونکہ وہ تو اپنی میز پر پڑے کا غذ کو بھی ہا تھ لگا نے کے لیے خان صاحب کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں ، مگر مسئلہ سند ھ کا ہے جہا ں پی پی کی حکومت ہے ، جو فی الحال رضا مند نظر نہیں آرہی ہے ، جس کو لا ئن پر لانے کی سعی ہو رہی ہے چنا نچہ انہی کا وشو ںکے نتیجے میں آصف زرداری گزشتہ دنو ں چہکے تھے کہ اگر درمیا نی مد ت کے انتخابات ہوئے تو پی پی کی حکومت ہو گی لیکن پھر انھو ں نے مفاہمت کا چولا بدلا ہے اور سیا سی آنکھیں لا ل پیلی کر نا شروع کر دی ہیں ۔ چنا نچہ یہ خبریں گرم ہو نا شروع ہو گئیں ہے کہ دسمبر کے آخر تک دونو ں بڑی جماعتو ں کی اعلیٰ لیڈر شپ سلا خو ں کے پیچھے ہو گی ۔ 
           میا ں نو از شریف نے 30دسمبر سے سیا سی تحریک کو بھر پو ر انداز سے چلا نے کا عندیہ دے رکھا ہے اور اس سلسلے میں ایک بڑے جلسے کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے خلا ف احتساب عدالت سے العزیزیہ فلیگ شپ مقدمے کا فیصلہ جو 24 دسمبر آنا ہے کیا ، نو از شریف کو یہ یقین ہے کہ وہ جلسہ کے مو قعہ پر جیل کی سلا خو ں کے پیچھے نہ ہو ں گے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ آصف زرداری کے لیے بھی جگہ صاف کی جا رہی ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان کے موقف میں کوئی تبدیلی آجا ئے کہ باہر ہی رہ جا ئیں ، تاہم نو ا ز شریف کو مشکل نظر آرہا ہے کیو نکہ ابھی مسلم لیگ ہی کی حکومت تھی تو انہوں نے اپنے خلا ف مقدما ت اور کا رروائیو ں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ سب اٹھارویں ترمیم کا معاملہ ہے ۔
         شنید یہ بھی ہے کہ وسط مد ت کے انتخابات کی راہ ہمو ار ہو تی ہے تو اسمبلیا ں تحلیل کر کے اس کی جگہ قومی حکومت بھی بنا ئی جا سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پا س کوئی وژن نظر نہیں آرہا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف سے قرضے کی با ت چلا ئی جا رہی ہے دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم سے قر ض لینے کی جلدی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضہ وصول کر نے یا کسی معاہد ے کے بغیر اس کی شرائط پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد ہورہا ہے۔
 گزشتہ روز بجلی کی قیمتو ں میںایک مرتبہ پھر اضا فہ کر نے کے بعداسد عمر نے آئی ایم ایف کے مجا ز افسر سے ویڈیو پر عمل درآمد کی رپو رٹ دی۔ پی ٹی آئی کے کا رکن ا ب تو منہ دھو نے کی خاطر یہ کہتے ہیںکہ غریب پا کستانی روپیہ استعمال کر تے ہیں اور پی ٹی آئی نے روپے کو سستا تو کر دیا اور کیا چاہیے ۔ بہرحال پی ٹی آئی کی کارگزاری کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس اتحادی بھی اب آنکھیں دکھانے لگے ہیں ۔ چنانچہ ان حالا ت میں ملک کانظام پا رلیمانی جمہوریت سے تبدیل کر کے صدارتی نظام قائم کر نے کی مبینہ کا وشیں بھی ممکن نہیں رہی ہیں چنا نچہ مڈٹرم الیکشن کا نا تا رہ گیا ہے ۔
 

شیئر: